آخرواٹس ایپ جاسوسی کس نے کس مقصد سے کرائی؟
اظہار رائے اور پرایوسی کے بنیادی جمہوری حقوق کو لے کر طرح طرح کے خدشات کے درمیان تازہ واٹس ایپ جاسوسی کا نیا چونکانے والا خلاصہ بے حد تشویش پیدا کرنے والا ہے ۔دنیا بھر میں1.5ارب لوگ واٹس ایپ استعمال کرتے ہیں لیکن مانا جا رہا ہے کہ یہ حملے خاص لوگوں کو نشانہ بنا کر کئے گئے تھے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی ٹیکنالوجی سے واٹس ایپ میں سیندھ لگا کر ہندوستانی صحافیوں وکیلوں اور انسانی حقوق رضا کاروں کی جاسوسی کے معاملوں میں متعدد انکشاف ہوئے ہیں ۔اپوزیشن نے تو اسے اشو بنایا ہی ہے ۔لیکن سرکار کے لئے یہ بھی باعث تشویش بنا ہوا ہے کہ فون اور موبائل پر بات چیت ٹیپ کرنے کی جائز ناجائز مثالیں تو مسلسل آرہی ہیں ان میں سرکاری ایجنسیوں کی ہی ساجھیداری بھی رہی ہے ۔سرکاری ایجنسیاں عموماََ اسے دیش کے مفاد میں آتنکی اور مجرمانہ سرگرمیوں پر روک رکھنے کے لحاظ سے جائز ٹھہراتی رہی ہیں ۔عدالتیں حالانکہ باربار ہدایت دیتی رہی ہیں کہ اس کے بہانے شخصی اظہار رائے اور پرائیوسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے ایسے دور میں واٹس ایپ بھروسہ دلاتا رہا ہے کہ اس پر کئی گئی بات چیت یا بھیجے گئے میسج محفوظ ہیں ۔لیکن اب پتہ چل رہا ہے کہ اسرائلی کمپنی این ایس او کے اسپائی مشین کے ذریعہواٹس ایپ پر بات چیت اور میسج ٹیپ کیا جاتا رہا ہے اس معاملے میں اور بھی چونکانے والی بات یہ ہے کہ شہریوں کی پرائیوسیوں پر ہوئے حملے ہم کو تب ملی جب خود واٹس ایپ نے امریکہ میں اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے خلاف مقدمہ درج کراتے ہوئے بتایا کہ اس کمپنی کے ذریعہ ڈیبلپ کئے گئے سافٹ وئیر کے ذریعہ دنیا بھر میں 1400لوگوں کے فون سے اطلاعات چرائی گئیں ہیں ۔فیس بک کی بالا دستی والے سندیش بھیجے کے پلیٹ فارم واٹس ایپ نے کہا کہ بھارت میں صحافیوں اور انسانی حقوق رضا کاروں پر پیکاسس کے ذریعہ نظر رکھی جا رہی تھی ۔یہ نظر کون کس لئے رکھے گا اسے سمجھنا مشکل نہیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ ہماری سلامتی کے خیال رکھنے والوں (سرکار )کی بھول ہے ۔واٹس ایپ نے بھی کہا ہے کہ کئی متعلقہ لوگوں کو جاسوسی کی اطلاع دی ہوئی ہے ۔بھیما کو ڈار کے کیس میں ملزمان کے وکیل میہال سنگھ راٹھور ،رضاکار وہیل میڈیا ،آنند تیلٹنڈے و صحافی سدھانت نے ایسے پیغام ملنے کا دعوی کیا ہے کانگریس نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ ہندوستانی صحافیوں اور سماجی رضا کاروں کی جاسوسی سے جڑے معاملے پر خود نوٹس لے کر مرکزی سرکار کی جوابدہی طے کرئے ۔جاسوسی کے معاملے میں پتہ لگنے کے بعد پارٹی نے مرکز کی این ڈی اے مرکزی سرکار پر الزام لگایا کہ وہ دیش کی قیادت کا اختیار کھو چکی ہے فی الحال اس جاسوسی کے دائرے میں تقریبا 1400لوگوں کے نام آئے ہیں ان میں 1200تو بھارت کے ہی ہیں ۔جن لوگوں کو بھارت میں نشانہ بنایا گیا ہے اس میں زیادہ تر انسانی حقوق رضا کار وکیل،دانشور اور صحافی شامل ہیں ۔بہت سے ایسے ہیںجو قبائلیوں اور دلتوں کے حقوق کے لئے آگے آگے رہتے ہیں اور صحافی بھی جو ڈیفنس معاملوں پر نظر رکھتے ہیں یا آزاد خیالی کے لئے جانے جاتے ہیں ۔بھیما کورے گاﺅں معاملے اور ایسے ہی کئی دیگر معاملوں کو یاد کریں تو صاف ہو جاتا ہے کہ شبہے کی سوئی کس طرف اشارہ رک رہی ہے ۔حالانکہ بھارت سرکار نے واٹس ایپ سے اس کی جوابدہی طلب کی ہے ۔لیکن اسرائیلی کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اسپای ویر کو صرف اور صرف سرکاری ایجنسیوں کو بھیجتی ہے ایسے میں سرکار کو بھی اپنی جوابدہی صاف کرنی چاہیے ۔سوال اُٹھتا ہے کہ اگر دانشور ،صحافی یا انسانی حقوق رضا کاروں کی بھی رائے ویسی اور اظہار رائے کی آزادی بھی محفوظ نہیں رہے گی تو ہماری جمہوری اقدار کا کیا ہوگا؟حالانکہ کچھ وقت پہلے سپریم کورٹ نے آدھار سے وابسطہ فیصلے میں پرائیویسی کے حقوق کو بنیادی حقوق کے زمرے میں ڈال کر ادھار کے استعمال کو صرف فلاحی اسکیموں تک محدود کر دیا تھا ۔دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ایسے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو یہ دیکھنا بھارت سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ابھی تک سرکار کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں آیا سرکار کو صاف الفاظ میں اپنے اوپر لگے الزامات اور شک کی سوئی اس کی طرف گھومنے پر جواب دیش کو ہی دینا ہوگا ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں