ایودھیا پرمودی سرکار کی پہل

سپریم کورٹ میں درخواست کے ذریعہ مودی حکومت نے نہ صرف ایودھیا میں رام مندر تعمیر پر بھاجپا کے عزم کا پیغام دینے کی کوشش کی ہے بلکہ سیاسی حساب کتاب بھی درست کرنے کی کوشش ہے ۔یہی نہیں ،اپوزیشن کو بھی چناﺅی زمین پر گھیرنے کی تیاری اس کے پیچھے دکھائی پڑ رہی ہے عام چناﺅ سے ٹھیک پہلے جب سادھو سنت سرکار پر رام مندر تعمیر کے لئے آرڈیننس لانے کے لئے دباﺅ بنا رہے ہیں تب حکومت نے غیر متنازع زمین کو واپس لوٹانے کی مانگ کر کے بیچ کا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے ۔حکومت نے سپریم کورٹ میں ایودھیا کی غیر متنازع زمین بنیادی مالک کو دینے کی عرضی دے کر یہ جتا دیا ہے کہ وہ چناﺅ سے پہلے رام مندر کے لئے پختہ پہل کرتی ہوئی دکھائی دینا چاہتی ہے ۔متنازع زمین پر جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے تب اگر غیر متنازع زمین مل گئی تو اس پر رام جنم بھومی نیاس مندر تعمیر کی شروعات کر سکتا ہے اور اس سے بھاجپا کو اپنے ایک اہم ترین وعدے کے لئے عمل کرنا دکھائی دئے گا ۔یہ سچ ہے کہ نرسمہا راﺅ سرکار نے 1993میں ایودھیا قانون کے تحت متنازع جگہ کے چاروں طرف کی یہ زمینیں اس لئے تحویل میں لی تھیں تاکہ وہاں کسی طرح کی تعمیراتی سرگرمی نہ ہوجس کے چلتے کشیدگی پیدا ہو سکے ۔وہ وقت 6دسمبر1992کو بابری مسجد مسماری سے نمٹنے کا تھا ڈر یہ تھا کہ کہیں مندر تعمیر کی کوشش نہ ہو جائے آج کافی وقت گذر چکا ہے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا تھا جس نے زمین کو تحویل میں لئے جانے کو فوری طور پر صحیح ٹھرایا لیکن کہا تھا جس کی زمینیں ہیں ان کو واپس مل سکتی ہیں بشرط وہ اس کے لئے عرضی دائر کریں ۔اس میں سے 42ایکڑ زمین رام جنم بھومی نیاس کی ہے جس کی تشکیل مندر تعمیر کے لئے کی گئی تھی سپریم کورٹ میں ایودھیا معاملے کی سماعت میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے اس کے بار بار ٹلنے سے سرکار مایوس ہے ۔سرکار کو محسوس ہو رہا ہے کہ عام چناﺅ سے پہلے سپریم کورٹ سے کوئی بھی فیصلہ مشکل لگ رہا ہے ۔سپریم کورٹ کو بھی لگتا ہے کہ اس کا حل حکومت نکالے اور وہ کوئی بھی فیصلہ دینے سے بچتی رہے اس لئے بار بار سماعت ٹلتی جا رہی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ فی الحال سرکار اس معاملے میں آرڈیننس کے متابادل کو اپنانے کے حق میں نہیں ہے اس لئے راتوں رات سپریم کورٹ میں عرضی دے کر غیر متنازع زمین کو واپس لینے کی مانگ کی گئی ۔سرکار کو امید ہے کہ جو غیر متنازعہ زمین ہے اس معاملے کے نمٹارے سے پہلے متعلقہ مالکوں کو لوٹانے میں زیادہ دقت اس لئے نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس معاملے میں ہائی کورٹ کا حکم بھی ہے ۔سرکار کا کہنا ہے کہ اس کی مانگ سے متنازع 313ایکڑ زمین کو الگ رکھا گیا ہے جس زمین کو لوٹانے کی درخواست کی گئی ہے اس پر مسلمانوں کا کبھی بھی دعوی نہیں رہا اس لئے اس زمین پر کوئی اور تنازعہ نہیں ہے ۔بتا دیں کہ الہٰ آباد ہائی کورٹ نے ستمبر 2010میں دئے اپنے فیصلے میں 2.77ایکڑ متنازع زمین کو تین فرقوں رام للا ویراجمان،نرموہی اکھاڑا،اور سنی وقف بورڈ کے درمیان برابر برابر بانٹنے کا حکم دیا تھا ۔اس فیصلے کے خلاف 14اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں جن کی سماعت آئینی بنچ کر رہی ہے ۔کل 67.7ایکڑ زمین میں صرف 0.313ایکڑ زمین ہی میں ہی تنازع ہے ۔سپریم کورٹ کی دھیمی رفتار پر خود سرکار کے کچھ وزیر اور بھاجپا نیتا تک اپنی بے چینی ظاہر کر چکے ہیں البتہ عدالت میں عرضی دائر کرنے کی ایک فوری وجہ کمبھ میں دھرم سنسد کے ذریعہ اس بارے میں اعلان کرنے کی بے چینی سے پیدا معاملہ بتایا جاتا ہے سرکار کی پہل کے بعد دھرم سنسد نے ایودھیا میں مندر تعمیر کرنے کی تاریخ بھی طے کر دی ہے سنت سماج کے لوگ فروری میں ایودھیا کے لئے کوچ کریں گے لیکن دھرم سنسد کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ مندر کی تعمیر کے لئے 21فروری کی تاریخ طے کی گئی ہے کورٹ کے رویہ پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ افسوس کا باعث ہے کہ کتے تک کو فوری انصاف دلانے والے رام کے دیش میں رام جنم بھومی کے مقدمے میں انصاف کیوں نہیں مل رہا ہے ۔سرکار کا یہ قدم اعلیٰ برادریوں کو ریزرویشن کے بعد دوسرا بڑا چناﺅی داﺅں ہے سرکار نے یہ بھی دلیل دی ہے کہ متنازع زمین تو 0.313ایکڑ ہی ہے باقی غیر متنازعہ زمین کا کیس تو 67ایکڑ کا ہے اس میں 42ایکڑ زمین رام جنم بھومی میاس کی ہے اب دیکھنا ہے کہ ساری زمین پر جوں کی توں پوزیشن قائم رکھنے کا حکم دے چکی سپریم کورٹ حکومت کی عرضی کیسے منظور کرئے گی اور اگر نہیں کرئے گی تو سرکار کیا راستہ اپناتی ہے ۔حالیہ تین ریاستوں میں چناﺅ ہارنے کے بعد حکومت کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اس کے تئیں جنتا خوش نہیں ہے اس درمیان کچھ میڈیا کے عام چناﺅ کے بارے میں سروے بتاتے ہیں کہ لوک سبھا چناﺅ میں این ڈی اے اکثریت سے دور ہو رہی ہے اور اس کو 99سیٹیوں کا نقصان ہو رہا ہے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ کہہ کر ماحول کو گرم کر دیا ہے کہ اگر وزیر اعظم ساتھ دیں تو وہ 24گھنٹے میں مندر کی تعمیر کا حل نکال سکتے ہیں مودی سرکار کو بھی اب لگنے لگا ہے کہ چناﺅ جیتنے کے لئے بھگوان شری رام کی شرن میں جانا پڑئے گا ۔ہم سبھی چاہتے ہیں بھگوان شری رام کا بھویہ مندر بنے اور مندر تعمیر کا کام بلا تاخیر شروع ہو لیکن سپریم کورٹ کے مرضی پر فیصلہ آنے کے بعد ۔جے شری رام ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!