لنگایت الگ دھرم کے اشو پر سیاسی گھمسان

کرناٹک اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے ایک بڑا سیاسی داؤ چلتے ہوئے کانگریس کی سدارمیا حکومت نے لنگایت اور ویر شید فرقہ کو الگ مذہب کی مانیتا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتادیں لنگایت فرقہ کو الگ مذہب کا درجہ دینے کی مانگ اس کے دھرم گورو کررہے تھے۔ اب چناؤ سے پہلے اس پر مہر لگاتے ہوئے کانگریس نے ناموہن داس کمیٹی کی سفارشیں ماننے کا فیصلہ کیا ہے۔ کرناٹک میں چناؤ کے پیش نظر اس فیصلہ کو کافی اہم ترین مانا جارہا ہے۔ بتادیں کہ کرناٹک خاص کرریاست کے شمالی حصہ میں لنگایت فرقہ کا کافی اثر ہے۔ ریاست میں لنگایت فرقہ کی 18 فیصدی آبادی ہے۔ یہ کرناٹک کی اگڑی برادریوں میں شامل ہے۔ 224 ممبروں والی کرناٹک اسمبلی میں اس فرقہ کے 52 ممبر ہیں۔ ریاست میں بھاجپا کے وزیر اعلی کے عہدے کے دعویدار وائی ایس یدی یرپا بھی اسی فرقہ سے آتے ہیں۔ ایسے میں یہ خیمہ بی جے پی کے حق میں تھا لیکن کانگریس سرکار کے اس قدم کے بعد بی جے پی کے لئے ریاست میں بڑی مشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔ سدارمیا کا مقصد صاف ہے کہ کانگریس یدی یرپا کے مینڈینڈ کو کمزور کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس فیصلہ سے سیاسی طوفان کھڑا ہونا ہی تھا۔ مرکزی وزیر اننت کمار نے وزیر اعلی سدارمیا کا موازانہ 1760 کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے رابرٹ کلائب سے کیا ہے جنہوں نے بھارت میں ’پھوٹ ڈالو راج کرو‘ کی پالیسی اپنائی تھی۔بھاجپا نے اسے ہندوؤں کو باٹنے والی بیحد خطرناک سیاست بتاتے ہوئے کہا کہ الگ دھرم کا درجہ دینے سے ویر شیولنگایت کے تحت آنے والے درج فہرست ذاتوں کے لوگ اپنا ریزرویشن کا آئینی حق کھو دیں گے۔ ادھر آر ایس ایس اور بی ایچ پی کا کہنا ہے کانگریس چناوی فائدہ کے لئے مرکز کی مودی سرکار کو بدنام کرنے کے لئے یہ سازش رچ رہی ہے۔ یہ ہندو دھرم کو توڑنے کی سازش ہے۔ بھاجپا نے کہا کہ کرناٹک سرکار کو14 نومبر2017 کو لکھے گئے ایک خط میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ بھارت کے رجسٹرار جنرل نے اس میں کہا تھا کہ ویرشیولنگایت ہندو دھرم کے ہی لوگ ہیں۔یہ آزاد دھرم نہیں ہے اس لئے 2011 کی مردم شماری کے دوران ویرشیولنگایت کو اپنا مذہب بتانے والے لوگوں کے لئے الگ کالم کی کوئی تجویز نہیں دی گئی تھی۔ مرکزی وزیر ارجن رام مگھوال نے کہا کہ ویر شیولنگایت مذہب کے ماننے والوں کو ہندو دھرم سے الگ کرنے کی کرناٹک سرکار کی سفارش کو مرکز منظور نہیں کرے گا۔ یہ معاملہ یوپی اے سرکارکی دوسری میعاد میں رجسٹرار جنرل کے سامنے آیا تھا اوراس نے 14 نومبر 2013 کو وزارت داخلہ کو بھیجی گئی اپنی سفارش میں کہا تھا کہ وزیر شیولنگایت ہندو دھرم سے اور اس وقت کی منموہن سرکار نے اسے منظور کیا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!