سکما حملہ منظم تھا
چھتیس گڑھ کے سکما ضلع میں حال ہی میں سکیورٹی فورسز پر بڑا حملہ کر ماؤ وادیوں نے ایک بار پھر اپنی موجودگی کا پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس حملہ میں سی آر پی ایف یعنی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی کوبرا بٹالین کے 9 کمانڈو شہید ہوگئے۔ دھماکہ کے لئے 75 کلو گرام دھماکو استعمال کیا گیا۔ دھماکو مواد اتنا طاقتور تھا کہ گاڑی ہوا میں 40 فٹ اونچے اڑ گئی اور گرنے کے بعد اس کے پرخچے اڑ گئے۔ سکما کے وستارم میں جس منظم طریقہ سے اینٹی مائن وہیکل (اے ایم وی) یعنی بارودی سرنگ تلاش کرنے والی گاڑی کو اڑاگیا۔ یہ ان کے منظم ہونے کا ہی نتیجہ مانا جارہا ہے۔ اس حملہ میں قریب 100 نکسلی ماؤ وادی شامل تھے۔ سی آر پی ایف چیف آر آر بھٹناگر نے کہا کہ یہ نکسل حملہ ٹالا جاسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم معاملہ کی تفصیل میں نہیں جانا چاہئیں گے۔ ان علاقوں میں پیرا ملٹری فورسز سے کہا گیا ہے کہ وہ احتیاط برتیں اور اپنی کارروائی جاری رکھیں۔ بھٹناگر کا کہنا ہے بیحد افسوسناک واقعہ تھا، اسے ٹالا جاسکتا تھا۔ ہم اب ان حالات کی جانچ کررہے ہیں کیسے کارروائی کو چلایا جائے۔ انہوں نے کہا وستارم اورپلوڑی کے درمیان پانچ کلو میٹر لمبی زیرتعمیر سڑک پر گاڑی اڑانے کے بعد دوسرے ایم پی وی میں سوار جوانوں نے نکسلی دستے کو منہ توڑ جواب دیا۔ نکسلیوں کا یہ دستہ پھنسے ہوئے یا زخمی جوانوں کو اور نقصان پہنچانے کے لئے جنگل میں موجود تھے۔ اس سال کی شروعات میں چھتیس گڑھ میں کارروائی کی کمان سنبھالنے والے پولیس ڈائریکٹر جنرل بستر کو جلدہی نکسلیوں سے آزاد کرانے کی بات کہی تھی لیکن 24 جنوری کو نکسلیوں نے نارائن پور میں حملہ کرکے چار جوانوں کو مار ڈالا تھا۔ اس کے بعد دتے واڑہ میں وزیر اعلی نے اگلے پانچ سال میں پردیش کو نکسل سے نجات دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب سکما حملہنے ان کے اس دعوے پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ ایک سال میں یہ پانچواں بڑا حملہ ہے۔ پچھلے سال سکما ضلع میں ہیں ایک مہینے کے اندر دو بڑے حملہ کر نکسلیوں نے 36 جوانوں کو مار ڈالا تھا۔ سکما حملہ کے بعد مرکزی وزیر مملکت داخلہ ہنسراج اہیر نے مانا کہ نکسلیوں سے نمٹنے کے لئے ہمارے جوانوں کو جدیدترین ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ سرکار سکیورٹی فورسز کو نئے سازو سامان سے لیس کرنا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے کہیں نہ کہیں ہماری سکیورٹی فورسز کے پاس ضروری ہتھیار اور ٹریننگ کی کمی ہے جس کی وجہ سے نکسلی آسانی سے حملہ انجام دیتے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں