1765 ایم پی اور ایم ایل اے پر 3045مقدمہ التوا میں

ہندوستانی سیاست کا آئینہ دکھاتے ہوئے ہمارے نمائندہ کتنے صاف ہیں ان اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے۔ محترم صاحبان کے جرائم کا لیکھا جوکھا سیاست کو جرائم سے پاک بنانے کی امید کو دھاراشاہی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ دیش بھر میں 1765 ایم پی اور ممبران اسمبلی کے خلاف3045 مجرمانہ مقدمہ التوا میں ہیں۔ اس تعداد سے زیادہ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ ان سبھی پر درج معاملہ 3045 ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ان میں کئی ایم پی اور ممبران اسمبلی ایسے ہیں جن پرایک سے زیادہ معاملہ درج ہیں۔ سرکار نے ان اعدادو شمار کے ساتھ سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کر ان کا ازالہ فاسٹ ٹریک عدالتوں میں ایک سال کے اندر کرنے کا عزم دوہرایا ہے۔ اس معاملہ میں اترپردیش پہلے اور تامل ناڈو دوسرے ،بہارتیسرے، مغربی بنگال چوتھے، آندھرا پانچویں نمبر پر ہے۔ ویسے کل مجرمانہ معاملہ 3816 تھے جن میں سے 771 نمٹ چکے ہیں۔ کورٹ نے مرکز سے 2014 میں نامزدگی بھرتے وقت مجرمانہ مقدمہ التواہونے کا اعلان کرنے والے ممبران اسمبلی اور ایم پی کے مقدمات کی پوزیشن پوچھی تھی۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ میں 10 مارچ 2018 کے حکم کے مطابق ایک سال میں نپٹائے گئے مقدموں کی جانکاری مانگی تھی۔ کورٹ نے یہ ہدایت بھاجپا نیتا اور وکیل اشونی اپادھیائے کی عرضی پر دی تھی۔ جس میں سزا یافتہ عوام کے نمائندوں کے چناؤ لڑنے پر تاحیات روک لگانے کی مانگ کی گئی تھی۔ ابھی سزا کے بعد جیل سے چھوٹنے کے 6 سال تک چناؤ لڑنے کے نا اہل ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی تعداد کچھ اور بڑھی ہوگی جن کے خلاف مجرمانہ معاملہ درج ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس طرح کے معاملہ نپٹانے کے لئے کچھ راستوں میں مخصوص عدالتوں کی تشکیل ہوگئی ہے۔ کچھ ریاستوں میں ہونا باقی ہے لیکن بات تب بنے گی جب ایک یقینی میعاد میں ان معاملوں کا نپٹارہ کیا جاسکے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے انتظامیہ مشینری کی باگ ڈور جن جن نمائندوں کے ہاتھ میں ہے ان کا انتخاب اہلیت پرنہیں بلکہ ذات و طبقہ ودھن بل اور دبنگی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جیل جانے اور ضمانت پر باہر آنے پر جشن منتا ہے۔ جو جتنا بڑا پیسہ والا اور دبنگی ہو اتنا ہی بڑا جشن، یہ ہی اس کی طاقت کا پیمانہ بنتا ہے۔ کبھی سیاست کی پاکیزگی کا خواب پورا ہوگا اس میں شبہ ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ محض قانون سے ہی ختم ہوگا؟ یہ کام دراصل سیاسی پارٹیوں کا ہے۔ انہیں سوچنا ہوگا کہ کیا وہ صحیح معنوں میں دیش کی سیاست کو صاف ستھرا کرنا چاہتی ہیں؟ لیکن جب تک امیدوار کا انتخاب اس کی دیدہ دانستہ دھن بل اور دبنگی پر ہوتا رہے گا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!