ایس سی- ایس ٹی ایکٹ کا بیجا استعمال

کافی عرصہ سے یہ محسوس کیا جارہا تھا کہ درج فہرست ذاتوں و قبائلیوں اذیت ازالہ ایکٹ یعنی ایس سی؍ ایس ٹی ایکٹ کابیجا استعمال کیا جارہا ہے۔ جس مقصد سے یہ بنایا گیا تھا وہ پورا نہیں ہو پارہا ہے اس لئے عزت مآب عدالت نے مداخلت کرکے اس ایکٹ کا بیجا استعمال روکنے کی پہل کی ہے۔ سپریم کورٹ نے درج فہرست ذاتوں اور قبائلی ایکٹ 1989 کے بیجا استعمال کو روکنے کو لیکر فیصلہ کیا ہے۔ مہاراشٹر کے ایک معاملہ میں منگلوار کو فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس پر گائڈ لائن جاری کی ہے اس کے تحت ایس سی؍ ایس ٹی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج ہونے پر ملزم کی فوری گرفتاری سے پہلے الزامات کی ڈی ایس پی سطح کا افسر ابتدائی جانچ کرے گا۔ اس میں الزامات کی تصدیق کے بعد ہی آگے کی کارروائی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت درج ایف آئی آر یا شکایت میں ملزم سرکاری ملازم ہے تو اس کی گرفتاری کے لئے شعبہ جاتی افسر کی اجازت ضروری ہوگی۔ دیگر ملزمان کی گرفتاری جیل کے سینئر پولیس افسر کی تحریری اجازت کے بعد ہی ہوگی۔ یہ اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ نے یہ ہدایت دی ہے کہ ٹارچر کی شکایت ملتے ہی نہ تو فوری اسے ایف آئی آر میں تبدیل کیا جائے گا اور نہ ہی ملزم کو فوراً گرفتار کیا جائے گا۔ ا س ایکٹ کا کس طرح بیجا استعمال ہورہا تھا یہ اس طرح سمجھ میں آرسکتا ہے کہ اکیلے 2016 میں دلت ٹارچر کے 5347 معاملے جھوٹے پائے گئے۔ اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ایس سی؍ ایس ٹی ایکٹ کا بیجا استعمال ذات برادری نفرت بڑھانے کا کام کررہا تھا۔ قانون کی حکمرانی کی ساکھ کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ ملزم بچ نہ پائے وہیں یہ بھی ہے کہ بے قصور ستائے نہ جائیں۔ یہ بھی صحیح ہوا کہ سپریم کورٹ نے یہ صاف کردیا کہ ایس سی ؍ایس ٹی ایکٹ کے تحت ملزم کو ضمانت دیا جانا بھی ممکن ہے۔ ضمانت پانے کی راہ صاف کرنے کی ضرورت اس لئے تھی کیونکہ اپنے دیش میں پولیس کی جانچ اور عدالتی کارروائی میں دیری کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کئی بار یہ دیری ملزم افراد کو بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ بنچ نے کہا کہ کسی معاملہ میں گرفتاری کے اگلے دن ہی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون بناتے وقت یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کا بیجا استعمال کیا جائے گا۔ بنچ نے گائیڈ لائنس میں دیری کی سبھی نچلی عدالتوں کے مجسٹریٹ سے کہا گیا کہ اس ایکٹ کے تحت ملزم کو جب پیش کیا جاتا ہے تو اس وقت انہیں ملزم کی حراست بڑھانے کے فیصلہ لینے سے پہلے گرفتاری کے اسباب کا جائزہ بھی لینا چاہئے اور اس میں اپنے ضمیر پر فیصلہ کرنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!