حکومت ۔انتظامیہ چلانا بھی ایک فن ہے

انتظامیہ چلانا و سرکار چلانا خالہ جی کا کھیل نہیں ہے۔ سرکار چلانے میں فن اور ٹیلنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس نیتا و اس کے ساتھیوں نے صرف سڑک چھاپ سیاست کی ہو ، صرف تحریک ہی چھیڑی ہو وہ نیتا سرکار کیسے چلا سکتا ہے؟میں دہلی سرکار اور عام آدمی پارٹی کی بات کررہا ہوں۔ کسی بھی سرکار یا انتظامیہ کو چلانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ آپ آئی اے ایس و دیگر انتظامی افسران کو ساتھ لیکر چلیں۔ اگر آپ انہیں گالی دے کر یہ امیدکریں کہ وہ آپ کے کہنے پر چلیں گے تو یہ مشکل ہے۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کہتے ہیں کہ افسروں کی غنڈہ گردی نہیں چلے گی۔ ڈینکس کیڈر کے دوسینئر افسروں کی معطلی کے مسئلے پر افسر اور سرکار آمنے سامنے آگئے ہیں۔ کیجریوال کہتے ہیں کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا صرف آئی ایس یا ڈینکس افسر ہی کی تقرری ہوگی۔ بھارت کی تاریخ میں شہید آئی ایس افسر ہڑتال پر نہیں گئے۔ یہاں سیاسی اسباب سے ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔ وزیر اعلی نے ایک ٹی وی چینل سے بات چیت میں یہاں تک کہہ دیا کہ آج دیش میں جو حالات ہیں افسر شاہی کی وجہ سے ہیں۔آئی اے ایس کوئی الگ سسٹم نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ دہلی کے وزیر اعلی ہم شری کیجریوال کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ اس آئی اے ایس کو گالی دے رہے ہیں، غنڈہ کہہ رہے ہیں جنہیں 20-25 سال کا انتظامی تجربہ ہے۔ آپ کو تو آئی اے ایس کا مشکل سے 4-5 سال کا تجربہ ہے اور اس میں بھی آپ ایک بھگوڑا ہیں۔ آپ ان کو گالی دے رہے ہیں؟ دراصل ہم کیجریوال کو قصوروار نہیں ٹھہراسکتے ، انہوں نے اپنی تمام عمر سڑک چھاپ سیاست کی ہے۔ سڑکوں پر اتھارٹی کے خلاف تحریک چلائی ہے ، وہ کبھی بھی کسی کو ساتھ لیکر نہیں چل سکے۔ پہلے وزیر اعظم پھر وزیر خزانہ اس کے بعد لیفٹیننٹ گورنر اور اب افسر شاہی سے بھی تو آپ کا ٹکراؤ چل رہا ہے۔ گالی گلوچ چل رہی ہے۔ کھلے طور پر تو نہیں لیکن بڑے سطح پر افسر کہہ رہے ہیں جن سے کام کروانا ہے اسے سرکار بھاجپا کی ’بی‘ ٹیم ،کرپٹ اور کمزور کہہ رہی ہے۔ ایسے میں ٹکراؤ نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا؟جو بات کیجریوال سمجھ نہیں رہے ہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے کہ جب کیندریہ سرکار یا لیفٹیننٹ گورنر کسی فیصلے پر آگے بڑھنے سے منع کردیں تو پھر دہلی میں تعینات افسر فائل کیسے سائن کریں گے؟ سرکار کے قریب قریب سبھی محکموں میں ایسے ہی تمام یوجنائیں اب رکیں گی۔ دہلی سرکار نے تنخواہ بھتے بڑھانے کا فیصلہ بھی کیبنٹ سے کیا تھا لیکن مرکز نے اسے غیر آئینی قرار دے دیا۔ پھر سی این جی گاڑی کی فٹنس گھوٹالے کی جانچ کے لئے کمیشن قائم کیا ، جسے منسوخ کرکے افسروں کو اس میں مدد نہ کرنے کا فرمان دے دیا۔ اب اسمبلی میں جن لوکپال ممبران اسمبلی کی تنخواہ میں اضافہ، تعلیم ایکٹ، اسکولوں کے کھاتوں کی جانچ کا قانون پاس کردیا ہے۔ انہیں بھی جنگ صاحب کو بھیج دیا گیا ہے، ان کا بھی حشر وہی ہوگا۔ دہلی سرکار کے افسر کہتے ہیں کیجریوال سرکار قواعد کو توڑ کر ہی چلنا چاہتی ہے۔ایسے میں اپنی نوکری کون افسر داؤ پر لگائے گا۔ کیجریوال صاحب اب دھمکیوں پر اترآئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر افسر کام نہیں کرنا چاہتے تو لکھ کر دے دیں، کیندر سرکار میں بھیج دیں گے۔ دہلی میں رہنا ہے تو کام کرنا ہوگا۔ کیجریوال نے کہا ہے کہ دادا گری چاہے افسروں کی ہو یا نیتاؤں کی بند کریں گے۔ ایسی صورت میں ہمیں تو 2016ء میں دہلی کی سرکار کے موثر ڈھنگ سے کام کرنے میں شبہ ہے۔ 2015ء میں بھی ٹکراؤ کی وجہ سے دہلی میں تقریاتی کام ٹھپ رہا اور اب2016ء میں بھی یہ ہی حشر ہونے کا امکان ہے۔ جیسے میں نے کہا انتظامیہ و سرکار چلانا ایک فن ہے جو تجربے اور ضمیر سے آتا ہے جس کی فی الحال بہت کمی نظر آتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!