شیعہ پیشوا مولوی شیخ نمر کی موت کے بعد خلیج میں شیعہ سنی کشیدگی!
سعودی عرب میں نامور شیعہ مذہبی پیشوا مولوی شیخ نمرالنمر سمیت 27 لوگوں کو دہشت گردی کے الزام میں سنیچر کو موت کی سزادی گئی۔ سعودی حکومت نے کہا کہ یہ لوگ 2003ء سے 06 کے درمیان القاعدہ کی طرف سے کئے گئے سلسلہ وار حملوں میں ملوث تھے۔ مولوی شیخ نمر النمر 2011ء کی سعودی سنی اکثریتی حکومت کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں کا چہرہ تھے۔انہوں نے بحرین اور سعودی عرب حکومت پر شیعہ اقلیتوں کو سختی سے دبانے کا الزام لگایا تھا۔ سنیچر کو جن لوگوں کو موت کی سزا دی گئی ان میں 45 سعودی عرب کے، 1 چاڈ، 1 مصر کا شہری تھا۔ ملزمان میں مولوی نمر بھی شامل تھے، کا ریاض اور دیگر شہروں میں سر قلم کیا گیا۔ 2012ء میں گرفتاری سے پہلے النمر نے کہا تھا کہ سعودی عرب کے سنی حکمراں نہیں چاہتے کوئی ان کے خلاف آواز اٹھائے۔ وہ مظاہرین کو مار ڈالتے ہیں۔ عدالت میں انہوں نے کہا تھا کہ میں نے سرکار کی نکتہ چینی ضرور کی ہے لیکن کبھی نہ تو ہتھیار اٹھایا اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنے کی اپیل کی۔ سعودی عرب اور بحرین میں اکثریتی سنی فرقے کی حکومت ہے۔ یہاں اقلیت شیعہ فرقے کے لوگوں میں زیادہ حقوق کی مانگ کرتے ہوئے 2011ء میں مظاہرہ کیا تھا۔ شیعہ مولانا شیخ نمر اس مظاہرے کا چہرہ تھے ۔ اس کے بعدشیعہ اور سنی لوگوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں تھیں۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ مولوی نمر دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے وابستہ تھے۔ وہیں ایران کا کہنا ہے کہ سعودی سرکار اپنے دیش میں رہ رہے نکتہ چیں( شیعوں ) پر ایسے الزام لگا کر موت کی سزا دیتی ہے جبکہ سنی دہشت گردوں کی حمایت کرتی ہے۔ مولانا نمر کی موت سے سنی سعودی عرب اور شیعہ ایران آمنے سامنے آگئے ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خمینی نے کہا کہ شیعہ مذہبی پیشوا النمر نے سعودی عرب کے خلاف کبھی سازش نہیں رچی۔ دہشت گردوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا ، وہ صرف سنی دیشوں کی حکومت کی پالیسیوں کی نکتہ چینی کیا کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ سنی ملکوں میں شیعہ مسلموں کو بھی اختیارات ملیں۔ بتادیں کہ مشرقی وسطیٰ میں عراق، لبنان، شام اور آذربائیجان شیعہ حمایتی ملک ہیں جبکہ سعودی عرب اور بحرین بڑے سنی حکمراں دیش ہیں۔ کچھ دنوں پہلے سعودی عرب نے دہشت گردی سے لڑنے کے لئے 34 مسلم ملکوں کا اتحاد بنایا تھا۔ اب شیعہ اور سنی ملکوں میں ٹکراؤ کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس اتحاد کے ٹوٹنے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ اتحاد کی پہلی اہم میٹنگ پاکستان کی راجدھانی اسلام آباد میں رکھی گئی تھی لیکن سعودی عرب کے وزیر خارجہ احمد الزبیرنے میٹنگ میں جانے سے منع کردیا۔ پاکستان کے خارجہ سکریٹری عزیز چودھری نے اس بات پر حیرانی ظاہر کی ہے اور کہا کہ سعودی عرب کی طرف سے خود اسلام آباد میں میٹنگ رکھی گئی تھی لیکن انہوں نے ہی آنے سے منع کردیا۔ ایران نے سعودی عرب کو مولوی کی موت کی بھاری قیمت چکانے کی دھمکی دے دی ہے۔ دراصل ایران میں شیعہ افراد مولوی نمر النمر کو کافی مانتے ہیں اس لئے ایران میں سعودی عرب سے کئی بار مولوی کو معاف کرنے کی درخواست کی تھی۔ ایران کے مظاہرین میں تہران میں واقع سعودی عرب سفارتخانے پر مولوی کو موت کی نیند سلانے پر مظاہرے کئے اور آگ زنی کی۔ مظاہرین شیعوں نے سفارتخانے میں توڑ پھوڑ کی تھی جس کے بعد پولیس نے طاقت کا استعمال کر انہیں وہاں سے بھگادیا۔ اس دوران وہاں آگ لگنے کی واردات بھی ہوئی اور سفارتخانے کے فرنیچر کو بھی آگ کے حوالے کردیا۔ اس مسئلے کو لیکر سعودی عرب اور ایران کے درمیان زبانی جنگ تیز ہوگئی ہے اور خلیج میں نیاشیعہ سنی تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔ خبر آئی ہے کہ ایران میں واقع سعودی عرب سفارتخانے اور قونصل خانے پر حملوں کے بعد سعودی شیخ نے اپنے زونل حریف ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑلئے ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ ابیل الزبیر نے ایتوار کی رات کو رشتے توڑنے کا اعلان کیا اور ایرانی سفارتکاروں کو دیش چھوڑ کر جانے کے لئے 48 گھنٹوں کا وقت دے دیا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں