نواز شریف کی شرافت پر بھروسہ

پاکستان کے ذریعے پٹھانکوٹ پر حملہ صرف ایک دہشت گردانہ واردات نہیں مانی جاسکتی۔ یہ تو بھارت پر حملہ تھا۔دیش کی عزت پر حملہ تھا۔ جہاں تک ہم ابھی تک سمجھ سکے ہیں اس حملے کا جواب بھارت کوئی سخت سندیش یا کوئی کڑی کارروائی کی جگہ یہ امیدکررہا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف حملہ آوروں پر سخت کارروائی کریں گے اور اس یقین دہانی سے ہمیں مطمئن کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے منگلوار کو پاک ہم منصب نواز شریف سے پٹھانکوٹ حملے کے گناہگاروں پر سخت کارروائی کرنے کو کہا۔ نواز نے بھی بلاتاخیر یقین دلایا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فوری اور فیصلہ کن قدم اٹھائیں گے۔ نواز شریف کیا کریں گے یہ ہم نے کئی بار پہلے بھی دیکھا ہے۔ دراصل وہ ان چاروں کے ہاتھ میں ہیں جو کچھ نہیں چاہتے ہوئے بھی پاک فوج کے ہاتھ محض کٹھ پتلی بنے ہیں۔ نواز شریف نے وزیر اعظم مودی کو فون کر ہند۔ پاک بامقصد بات چیت بچانے کی کوشش کی ہے لیکن ملک کے شہریوں کو اب محض یقین دہانیوں پر تشفی نہیں کرنی پڑے گی کہ پاکستان جانچ میں پورا تعاون دے گا۔ ہند۔ پاک سیکریٹری سطح کی بات چیت منسوخ کرنا بھی ہم کوئی جوابی کارروائی نہیں مانگے۔ یہ حملہ پاکستانی فوج اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ جو جانکاریاں سامنے آرہی ہیں ان سے تو یہاں تک لگتا ہے کہ ان دہشت گردوں کو پاکستانی ایئر فورس بیس پر ایک مہینے کی باقاعدہ ٹریننگ دی گئی تھی۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایئر بیس پر کون سی چیز کہاں رہتی ہے۔ کون کون سے ٹارگیٹ ہیں۔ یہ اگر صحیح ہے تو پاکستان سرکار، فوج کی مدد کے بغیر کوئی نان اسٹیٹ ایکٹرن ہیں کرسکتا۔ پٹھانکوٹ آپریشن اتنے دن بعد بھی ہماری سکیورٹی ایجنسی صحیح میں یہ نہیں بتا پارہی ہیں کہ کتنے دہشت گرد ایئر بیس میں گھسے تھے؟ کہا جارہا ہے کہ آتنکی دو گروپ میں آئے تھے ،ایک گروپ ایئربیس میں پہلے ہی گھس پیٹھ کرچکا تھا ۔ یہ بھی مانا جارہا ہے کہ دہشت گردوں نے خودکو دو اور چار گروپوں میں بانٹ لیا تھا۔ ان میں سے دو دہشت گرد تو الرٹ جاری ہونے سے پہلے ہی ایئربیس میں داخل ہوچکے تھے۔ انہوں نے وہیں جھاڑیوں میں گھس پر سنیچر کی صبح تک انتظار کیا۔اس کے اشارے دہشت گردوں کی پاکستان میں بیٹھے اپنے آقاؤں کے ساتھ فون سے ملتے ہیں۔6 دہشت گردوں کے مارے جانے کے بعد بھی وزیر دفاع یا فوج کی طرف سے کوئی سرکاری بیان نہیں آیا ہے۔ سبھی دہشت گردوں کا صفایا ہوچکا ہے۔ابھی تک یہ صحیح نہیں پتا چلا کہ غلطی کہاں ہوئی۔ پٹھانکوٹ حملے میں مختلف سطحوں پر ہوئی چوک کے لئے ذمہ داری طے ہونا ضروری ہے۔بی ایس ایف نے اپنی ابتدائی جانچ رپورٹ میں کہا ہے کہ دہشت گرد سرحد پر باڑھ پار کرکے نہیں گھسے تھے بلکہ وہ راوی ندی کی طرف سے دہشت گردوں کے گھسنے کے امکان زیادہ ہیں۔ ادھر پنجاب پولیس پر اپنے ہی ایس پی کی اطلاع پر فوری کارروائی نہ کرنے اور اطلاع ملنے کے باوجود دہشت گردوں کو ایئربیس پہنچنے سے روکنے میں ناکام کا الزام لگ رہا ہے۔ گوردار پور کے ایس پی سلوندر سنگھ کا تبادلہ دودن پہلے ہو چکا تھا۔ 31 دسمبر کی رات کو قریب11 بجے ایس پی اس سرحدی علاقے میں ایک مزارسے لوٹ رہے تھے جس میں وہ پہلی بار گئے تھے۔ نروٹ جے مل سنگھ کے پاس دہشت گردوں نے ان کا اغوا کرلیا۔ جہاں اغوا کیا گیا وہ پٹھانکوٹ ایئر بیس سے 40 کلو میٹر کی دوری سے بھی کم ہے۔ نیلی بتی لگی مہندرا ایکس یو وی سے یہ سفر طے کرنے میں ایک گھنٹہ بھی نہیں لگا ہوگا۔ تین کلو میٹر پہلے پنکچر ہونے کے بعد بھی ان کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ ڈیڑھ یا دو بجے تھے ٹارگیٹ تک پہنچ جائیں۔ جانچ میں سامنے آرہا ہے کہ قریب 2 بجے ہی پنجاب پولیس کے سینئر افسران تک یہ خبر پہنچ چکی تھی لیکن غیر الرٹ جاری ہونے سے پہلے ہی دہشت گرد ایئر بیس میں داخل ہوچکے تھے۔ دوسرے لفظوں میں ایس پی کے اطلاع دینے سے پہلے دہشت گردوں کو اتنا وقت مل چکا تھا کہ ایئربیس میں داخل ہوجائیں۔ سلوندر سنگھ بار بار اپنا بیان بھی بدل رہے ہیں۔ پنجاب پولیس کی لاپروائی اور ہماری سکیورٹی ایجنسیوں میں تال میل کی کمی ان پرپھر روشنی ڈالوں گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نواز شریف پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کررہے ہیں۔ وہ کچھ نہیں کرسکتے جب ان کی آنکھ کے نیچے اٹل جی بس سے لاہور گئے تھے توجواب ملا تھا کارگل، پٹھانکوٹ حملے نے جو زخم ہندوستانی عوام پر چھوڑے ہیں وہ کوہری یقین دہانیوں، تقریروں،نعروں سے شایدہی بھر سکیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!