کہیں موجودہ بحران سے پاکستان میں فوجی حکومت نہ ہوجائے؟
پاکستان کی اندرونی سیاست ویسے تو اس کا اپنا معاملہ ہے لیکن ایک غیر پائیدار پاکستان بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔ اور وہاں حالات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان میں نواز شریف کو ہٹانے کیلئے پچھلے کچھ عرصے سے جاری تحریک پہلے سے زیادہ تشویش کا باعث تھی لیکن اب اس کے تشدد میں بدل جانے سے نواز شریف کی جمہوری حکومت پر عدم استحکام کے بادل منڈرانے لگے ہیں۔ سیاست کے ذریعے جب شورش کو ہوا دی جاتی ہے تو ویسا ہی کچھ حال ہوتا ہے جو ان دنوں پاکستان میں چل رہا ہے۔ تحریک انصاف پارٹی کے نیتا عمران خاں اور عوامی پارٹی کے لیڈر مولانا طاہرالقادری جن مطالبات کولیکر پاکستان میں پارلیمنٹ کی گھیرا بندی کئے ہوئے ہیں اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ نواز شریف کے استعفے کی مانگ پر اڑیل عمران خاں اور مولانا طاہر القادری کو پاکستان کے عام چناؤ ہونے کے ایک سال بعد یاد آیا ہے کہ چناؤ میں دھاندلی ہوئی تھی اس کے چلتے اس کو نقصان اٹھانا پڑا؟ عمران خاں کی طرح سے طاہرالقادری کی طرف سے جو دلیل دی جارہی ہے نواز شریف کے استعفیٰ دینے سے دیش کے مسائل کا حل ہوجائے گا، اس کا بھی کوئی جواز سمجھنا مشکل ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستانی فوج جس طرح سے سرگرم اور موثردکھائی پڑ رہی ہے اس سے نہ صرف نواز شریف ایک کمزور وزیر اعظم کے طور پر ابھرکر سامنے آئے ہیں بلکہ پاکستان میں جمہوریت بھی ڈانواڈول ہوتے دکھائی دینے لگی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر عمران خاں وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے پر اڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے متبادلے کو پورا کرانے کے لئے آخری دم تک جدوجہد جاری رکھیں گے جبکہ نواز شریف سرکار کہتی آرہی ہے کہ وزیر اعظم کے استعفے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ سرکار اور اپوزیشن کی اس کھینچ تان کے بیچ پاکستان کے سیاسی مستقبل کو لیکر بھی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کی عوام کیا چاہتی ہے؟ لوگوں کو ڈر ہے اس کھینچ تان کے درمیان پھر سے کہیں پاکستان میں مارشل لا نہ لگ جائے یعنی فوجی حکومت قائم نہ ہوجائے۔ پاکستان کی تاریخ میں 2013ء کا عام چناؤ پہلا موقعہ تھا جب جمہوری طریقے سے چنی گئی ایک حکومت نے پانچ سال کی اپنی میعاد پورا کرنے کے بعد جمہوری طریقے سے منتخب ایک دوسری سرکار کو اقتدار حوالے کیا۔ اس کو فوجی حکومت کی تاریخ والے دیش میں جمہوریت مضبوط ہونے کے ثبوت کے طور پر دیکھا گیا۔کرکٹر سے سیاستداں بنے عمران خاں نے اس چناؤ میں اپنی دلچسپ اور سنجیدہ دعویداری لوگوں کے سامنے رکھی تھی کہ وہ کرپشن اور امریکی ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھائے ہوئے تھے تب ان کے چناؤ مہم میں ان کے اس نعرے پر کافی بھیڑ دیکھی گئی ۔ انہیں پاکستان کا ایک ابھرتا ستارہ کیاگیا۔ حالانکہ چناوی نتیجے پی ایم ایل نواز کے حق میں آئے اور نواز شریف وزیر اعظم بن گئے اور عمران خاں کو توقع کے مطابق کامیابی نہیں ملی۔ مگر ان کی پارٹی پارلیمنٹ میں تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری۔
عمران نے چناؤ میں دھاندلی کا الزام لگایا اور جانچ کا مطالبہ کیا۔ نواز شریف کے استعفے کی مانگ اسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن اب جب عمران اور شریف آمنے سامنے ہیں اور پی ٹی اے چیف طاہرالقادری بھی عمران کی حمایت کررہے ہیں، پاکستانی عوام سوچنے لگی ہے کہ یہ رویہ دیش میں جمہوریت کے لئے اتنا مفید رہے گا؟ لوگوں کو ڈر ہے کہ دیش میں سیاسی عدم استحکام بڑھا تو فوج پھر سے اقتدار پر قابض ہونے کی راہ پر بڑھ سکتی ہے اور اب عوام پرانے دور میں لوٹنا نہیں چاہتی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خاں کے اشو پر مظاہرے میں بھیڑ دیکھنے کے باوجود نواز شریف کو گرانے کے حق میں آواز مضبوط ہوتی نہیں دکھائی پڑ رہی ہے۔ ویسے یہ حیرت ناک ضرور ہے کہ پارلیمنٹ میں کافی حمایت کے باوجود نواز شریف بحران سے نمٹنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ اس سے زیادہ عجب اور کیا ہوگا کہ جو نواز شریف یہ کہہ رہے تھے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد حکومت شہریوں کی طرف سے چلے گی، وہ آج فوج کی مدد لینے کے لئے مجبور ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا تھا کہ موجودہ بحران کو حل کرنے میں فوج نے اپنے سطح پر مداخلت کی ہے لیکن فوج نے صاف کہا کہ اس نے وزیر اعظم کے کہنے پر ہی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ موجودہ بحران میں پہلے فوج نے متوقع توازن کا رویہ اپنانے کا ثبوت دیا تھا لیکن بعد میں اس کی ثالثی کے حالات پیدا ہوئے اورتنازعہ اور بگڑے حالات کودیکھتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل شریف راحل نے کور کمانڈروں کی میٹنگ بلانے کے تازہ فیصلے کے کئی مطلب نکالے جارہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چناوی جیت کے جوش میں اپنے حریفوں کو نظرانداز کرنے کی غلطی نواز شریف نے بھی کی تھی ، نہیں تو شروعات کے کچھ سیٹوں پر دوبارہ پولنگ کرانے کی مانگ کرنے والے عمران خاں آج بھی پی ایم ایل نواز کی چناوی جیت کو ہی دھاندلی کا نام نہیں دیتے۔ اسی طرح مولانا طاہرالقادری کے مطالبات کے گئیں شروعات میں تو نرمی دکھانے پر شاید یہ حالات نہ بگڑتے البتہ پاکستان کو تشدد اور تعطل اور غیر یقینی حالات پر پہنچانے کے لئے عمران خاں اور قادری زیادہ ذمہ دار ہیں۔ قادری کیونکہ ایک عالم دین ہے لہٰذا پاکستان جیسے ایک کٹر ملک میں ان کی تحریک اور حمایت کی بھیڑ سے اتنا تعجب نہیں ہوتا لیکن عمران خاں جیسے سیاستداں جو خود عام چناؤ میں ایک وزیر اعلی بنے وہ آج چنی ہوئی سرکار کو اقتدار سے باہر کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں یہ بات حیران کرنے والی ہے اور تشویش کا باعث بھی۔ عمران خاں کے طور طریقوں سے خود ان کی پارٹی میں بھی اتفاق رائے نہیں ہے۔ ریڈ زون میں پرامن مظاہرہ کررہے حمایتیوں کو وزیر اعظم کی رہائش گاہ تک کوچ کرنے کے عمران خاں کے فیصلے پر ان کی ہی پارٹی میں بغاوت ہوگئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس کے چلتے پارٹی صدر اور سینئر لیڈر جاویدہاشمی سمیت چار لوگوں کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔ سرکار مخالف مظاہرین نے بھی میڈیا کو بھی نہیں بخشا۔ ایتوار کو پاکستان کے بڑے ٹی وی چینل جیو نیوز کے دفتر پر پتھراؤ کیا گیا۔ حملے میں ٹی وی چینل کی عمارت کو نقصان پہنچا۔ پاکستان میں ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو نواز شریف کی جمہوری سرکار کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ ایسے میں فوجی تاناشاہی کا خدشہ نظر آرہا ہے۔ پڑوس کے حالات سے ظاہر ہے کہ خود بھارت کیلئے بھی بیحد تشویشناک ہے۔ بھارت کو اور چوکنا رہنا ہوگا۔ امید کرتے ہیں کہ پاکستان میں جاری عدم استحکام کو پاکستان کی سپریم کورٹ ہی دور کرے گی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں