مودی حکومت کے100 دن نہ اچھا نہ خراب اوسطاً ہے کام کاج!

مہنگائی ،کرپشن، گوڈ گورننس کے اشو پر مرکز میں اقتدار میں آئی مودی سرکار نے100 دن پورے کرلئے ہیں۔ وہیں حکومت کیلئے یہ دن کھٹے میٹھے تجربے والے رہے۔حکومت نے پچھلے100 دنوں میں ایک کے بعد ایک کئی فیصلے لئے ہیں۔ ان میں سے کچھ متنازعہ رہے تو کچھ کی تعریف ہوئی۔ چلئے مودی کے 100 دن کی میعاد کا تجزیہ کریں۔ پرانی دہلی میں پراٹھے والی گلی سے گزرئے تیار ہوتے پراٹھوں کی خوشبو بھوک بڑھا دیتی ہے، رہی بات لذت کی یہ بنانے والے کے ہنر پر ٹکی ہے۔ مودی سرکار کے پہلے100 دن کے کام کاج پر رائے ایسی ہے۔ اب جب حکومت نے پہلا مرحلہ پار کرلیاہے مہنگائی ڈائن کا گانا ابھی بار بار گایا جاتا ہے، کچھ فیصلے بہر حال ایسے ضرور ہوئے ہیں جن سے لگتا ہے کہ لال فیتاشاہی ختم ہوگی اور سسٹم میں بہتری اور عوامی سہولیات کی کوالٹی بہتر ہوگی۔ لوگ دیش میں بڑی تبدیلی چاہتے ہیں اور اس لئے نریندر مودی کو وقت دے رہے ہیں۔ انہوں نے ریل کرائے میں زبردست اضافہ چپ چاپ طریقے سے برداشت کرلیا ہے۔ مہنگائی پر یوپی اے سرکار کے طرز پر سرکار کی بہانے بازی بھی سنی جارہی ہے۔ معیشت میں راتوں رات بہتری نہیں ہوسکنے کی دلیل بھی سنائی دے رہے ہی۔ یہ سب صرف اس امید پر برف پڑنے کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ اب کی بار مہنگائی پر حملے کا نعرہ دے کر اقتدار میں آئی مودی سرکار پہلے ہی دن سے مہنگائی کے محاذ پر لڑ رہی ہے۔ بھاجپا نے اپنے چناوی منشور میں قیمت کنٹرول فنڈ اور نیشنل ایگری مارکیٹ جیسی پہل کے بوتے مہنگائی روکنے کا دم بھرا تھا لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مہنگائی کے مورچے پر ابھی تک تو مودی سرکار ناکام ہوئی ہے۔ پچھلے تین مہینے سے مہنگائی کی مار بدستور جاری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار پیاز نہیں ٹماٹر80 روپے کلو بک رہا ہے۔ راحت صرف اتنی ہے کہ بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کے دام گرنے سے پیٹرول 3 روپے سستا ہوا ہے۔ صرف پھل ،سبزیوں کو منڈی قانون سے باہر رکھنے جیسے اقدامات سے مہنگائی رکنے والی نہیں ہے۔ اصل میں ہمیں مہنگائی کو دیکھنے پرکھنے کا نظریہ بدلنا ہوگا۔ پیاز ،آلو کے دام پر 26 مئی سے28 اگست کے درمیان 24-25 فیصدی دام بڑھے ہیں۔ اسی میعاد میں ٹماٹر15 روپے فی کلو سے59 روپے جو کہ 293 فیصدی اضافہ درج کیا گیا ہے۔ دودھ جیسی روز مرہ کی استعمال میں آنے والی چیزپر36 سے38 روپے، آٹا سے21 سے22 روپے، ارہر 75 روپے سے 80 روپے یعنی 6 فیصدی دام بڑھے ہیں۔ نہ کھاؤں گا ،نہ کھانے دوں گا کہ دعوے کے ساتھ وزیر اعظم نے کرپشن پر لگام لگانے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے100 دن کی سرکار میں اس سمت میں کچھ قدم اٹھانے کی آہٹ ضرور سنی گئی لیکن ابھی سخت اور بڑے قدموں کا انتظار ہے۔ مثلاً مودی نے جہاں اپنے ممبران کو یہ نصیحت دی ہے کہ وہ تبادلے، تقرری کی سفارش لے کر نہ آئیں کسی طرح سرکاری بابوؤں پر لگام کسنے کے لئے فیصلوں میں صاف ستھرا پن لانے کی شروعات کرنے کی پہل کی ہے۔ اس کے باوجود ملک میں کرپشن کے خاتمے کولیکر لوک پال کے لئے اٹھی آواز کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں مودی سرکار نے پہلے100 دنوں میں ایک بھی قدم نہیں اٹھایا۔ جبکہ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے بھی سرکار سے سوال پوچھا ہے کہ اچھا انتظامیہ دینے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئے نریندر موی عورتوں کی سلامتی کے اشو پر ابھی تک خاموش اور ناکام رہے ہیں۔ 
دہلی شہر جو وزیر اعظم کی آنکھ کے نیچے ہے، میں آبروریزی کے واقعات میں ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔ دہلی آج ریپ کیپیٹل بن گئی ہے۔ دہلی میں قانون و سسٹم دہلی سرکار کے نہ بننے کی وجہ سے وزارت داخلہ کے ماتحت آتا ہے جو کہ مودی سرکار کے ہاتھ میں ہے۔ دہلی میں سرکار کی بات کریں تو یہ دکھ کی بات ہے کہ 100 دن گزر جانے کے باوجود مودی یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ دہلی میں چناؤ ہونا ہے یا سرکاردوبارہ بننی ہے۔گذشتہ سہ ماہی میں دیش میں ترقی کی رفتار 5.7 فیصدی بڑھی ہے جو پچھلی9 سہ ماہی میں تقریباً ڈھائی سال میں سب سے زیادہ ترقی شرح ہے۔ اس اعدادو شمار کے آتے ہی مودی سرکار کے وزرا نے اس کا سہرہ لینے کیلئے دوڑ لگادی ہے۔ یہ 5.7فیصدی کا اعدادو شمار اپریل 2014ء سے جون2014 کے درمیان کا ہے۔ مودی سرکار26 مئی کو اقتدار میں آئی۔ محض ایک ماہ کے اندر ترقی شرح بڑھی تو اس کا سہرہ یوپی اے سرکار کو جاتا ہے مودی سرکار کو نہیں۔ کئی ایسی اسکیمیں ہیں جو منموہن سنگھ سرکار کے عہد میں شروع ہوئیں لیکن فیتہ اس کے لئے مودی نے کاٹا ہے۔ مثال کے طور پر دہلی سے کٹرہ ریل چلائی، یہ اسکیم کئی سال پہلے یوپی اے حکومت نے بنائی اور اس پر کام کیا لیکن فیتہ مودی جی نے کاٹ دیا۔ انہیں یہ سہرہ نہیں لینا چاہئے۔ مودی کا تنازعوں سے پرانا رشتہ ہے۔ پہلا تنازعہ آرڈیننس کے ذریعے مودی نے نپندر مشر کو پرنسپل سکریٹری بنانے کا رہا۔ راتوں رات یہ آرڈیننس جاری کرکے فیصلہ لے لیا۔ مودی نے اپنے فیصلے میں اچھے برے کا تال میل بنائے رکھا۔ پڑوسیوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا اور ان کی حرکتوں کا جواب بھی دیا۔ جن دھن یوجنا میں ہر خاندان کے بینک کھاتے کھولنے کے حکم کی تعریف ہورہی ہے۔ 
دیش کی عدلیہ میں مداخلت کرتے ہوئے ججوں کی تقرری کا سسٹم میں تبدیلی لانااور پرانے کولیجیم کو ختم کرنا بھی عام طور پر اس کا بھی خیر مقدم ہوا ہے۔ پہلی بار کیبنٹ کی میٹنگ میں کالی کمائی کی واپسی پر ایس آئی ٹی بنانے پر سپریم کورٹ نے بھی تعریف کی ہے۔ گورنروں کے استعفے سے ضرور تھوڑا تنازعہ کھڑا ہوا لیکن کل ملا کر ایک بڑا فیصلہ تھا۔ وزرا پر لگام کسنے کے لئے ان کے رشتے داروں کو پرسنل اسٹاف میں رکھنے پر بھی روک لگنے کا صحیح قدم تھا۔ ہر ایم پی کو نشانہ دیا گیا کہ وہ اپنے حلقے میں ایک گاؤں کو 2016ء تک ماڈل گاؤں بنائے، کا بھی خیر مقدم ہوا۔ عورتوں کیلئے ٹوائلٹ بنانے کی اپیل لائق تحسین تجویز ہے۔ مودی نے میڈیا دونوں الیکٹرانک۔ پرنٹ کو اپنے سے دور رکھنے کے پیچھے ان کی ذاتی ناراضگی دکھائی پڑتی ہے۔ وہ2002ء سے ان کے خلاف چلائی مہم سے میڈیا سے ناراض ہیں۔ امت شاہ کو بھاجپا کا پردھان بنوا کر مودی نے پارٹی اور سرکار پر پورا کنٹرول کرلیاہے۔ کل ملاکر مودی کے100 دن کی میعاد نہ تو اچھی رہی نہ ہی خراب بلکہ اوسط والی کام کاج کی رہی۔ مہنگائی ،کرپشن،عورتوں کی سلامتی جیسے برننگ اشوز جن کو لیکر مودی اقتدار میں آئے تھے، ان پر تسلی بخش رائے نہیں رکھتی دیش کی جنتا۔ امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان میں بہتری ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!