کاشی وشوناتھ کے شہر میں تین دن!

عام چناؤ کی راجدھانی بن چکی کاشی میں تین دن گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہاں سے نریندر مودی نہ صرف کامیاب ہورہے ہیں بلکہ بھاری فرق سے جیتیں گے۔ میں اور میرے ساتھی 3 مئی کو کاشی پہنچے تھے اور5مئی کی شام کو وہاں سے دہلی لوٹے۔ چناؤ کمیشن اور مقامی انتظامیہ کی سختی کی وجہ سے شہر میں ہمیں نہ تو کوئی جھنڈا نظر آیا ، نہ بینر، نہ پوسٹر ، ہاں ہورڈنگ ضرور لگے نظر آئے سبھی اہم امیدواروں کے۔ نریندر مودی ،عام آدمی پارٹی، سپا اور کانگریس ہم نے ان تین دنوں میں بہت سے لوگوں سے پوچھا۔ پہلے تو وہ ڈر کی وجہ سے جواب دینے کو تیار نہیں ہوئے لیکن سمجھانے کے بعد ایک شخص کے بجائے سبھی نے مودی کو ووٹ دینے کی بات کہی۔ ایک ریڑی والے نے ضرورجھاڑو پر مہر لگانے کی بات کہی۔ ہمارا نتیجہ یہ ہے کہ ریڑی والے، پٹری والے، دلت طبقہ اور کچھ بابو کلاس ضرور اروند کیجریوال کو ووٹ دے گا ۔ ایک مسلمان بھائی سے بات ہوئی اس نے دو ٹوک کہا کہ کیجریوال بے شک اچھے آدمی ہیں لیکن ہم انہیں کیوں ووٹ دیں؟ وہ سرکاربنانے تو جا نہیں رہے نہ ہی وہ ہمیں یہاں کی پولیس و افسروں کی سختی اوربیہودگی سے بچا سکیں گے؟ اس لئے ہم انہیں ووٹ نہیں دیں گے لیکن اتنا طے لگتا ہے کوئی بھی مسلمان مودی کو ووٹ شاید ہی دے۔ مسلمانوں کو اس بات کا غصہ ہے کہ کانگریسی امیدوار اجے رائے نے اپنے بھائی کے قاتل مختار انصاری سے کیوں حمایت لی؟ وہ اس سے ناراض ہوکر کانگریس کو ووٹ نہیں دیں گے۔ جب ہم کاشی میں تھے تو سپا کی بھی حالت دیکھنے کو ملی کیونکہ یوپی میں سپا کی حکومت ہے۔ انتظامیہ ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اسے بھی ووٹ ڈر کے مارے ملیں گے۔لہٰذامسلم ووٹ ہمیں تو کانگریس ،سپا، عام آدمی پارٹی میں بٹتا نظر آیا ۔بسپا کا کوئی اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔ حالانکہ لوک سبھا چناؤ کی راجدھانی بن چکی کاشی میں بھلے ہی 42 امیدوار تال ٹھوک رہے ہوں لیکن اہم مقابلہ اگر ہے تو مودی بنام کیجریوال ہے۔ ہم فگرا حلقے میں ورون ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ علاقے میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار کیلاش چورسیا کے مرکزی دفتر کے بغل میں ناریل پانی بیچ رہے سنجے ڈام سے اس کی رائے جاننی چاہی تو اس نے تپاک سے کہا بابو جی یہاں پھول(کمل) اور جھاڑو کی لڑائی ہے۔باقی تو سب ہوا ہوائی ہے۔ بابا وشواناتھ کے درشن کرنے کے بعد ہم باہر اپنے جوتے پہن رہے تھے تو سامنے دو دوکانداروں میں بحث چھڑی ہوئی تھی۔ایک کمل حمایتی تھا تو دوسرا جھاڑو۔بحث اتنی گرما گرم ہوگئی کہ ہاتھا پائی تک نوبت آگئی۔ وارانسی میں منی پاکستان کے نام سے مقبول مدن پورہ علاقے میں کاروباریوں کی بھی یہ ہی رائے تھی کہ لڑائی کمل اور جھاڑو میں ہورہی ہے حالانکہ اقلیتوں میں آپ کی سفید ٹوپی کافی تعداد میں نظرآئی۔ ایک صحافی بھائی کا کہنا تھاکہ شروع میں تو حالات الگ تھے لیکن مودی اور کیجریوال کے سبب یہاں چناوی پولارائزیشن کا امکان زیادہ مضبوط ہوگیا۔ پولنگ کی تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی ہے وارانسی کے ووٹر دو خیموں میں بٹتے نظر آرہے ہیں۔ مودی وارانسی پہنچنے والے ہیں لگتا ہے ان کے آنے سے ہوا مودی کے حق میں ہوجائے اور مودی کے طوفان کے آگے سب اکھڑ جائیں گے یہ ہے ہماری کاشی یاترا کی رپورٹ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!