بابا وشوناتھ کی کاشی میں چناؤ نہیں کروکشیتر یدھ ہے(1)...
اب عام چناؤ اپنے آخری پڑاؤ کی طرف بڑھ رہا ہے۔12 مئی کو 16 ویں لوک سبھا کے لئے چناؤ مکمل ہوجائے گا۔ حالانکہ اس دن بہار، مغربی بنگال، اترپردیش کی کچھ سیٹوں پر ووٹ پڑنے ہیں لیکن اب سب کی توجہ وارانسی پر مرکوز ہے۔اس آخری دور میں وارانسی میں رائل بیٹل(شاہی مقابلہ) ہے۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب بنارس چناؤ کے الگ ہی رنگ میں دکھائی دے رہا ہے۔ دیش میں ہورہے چناؤ کی انتہائی ہاٹ سیٹ بنارس میں بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی کے مقابلے پر کانگریس کے اجے را ئے اور عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال کے سبب یہ جنگ زبردست ہوگئی ہے۔ نئے بنتے تجزیوں کے درمیان مودی رائے اور کیجریوال کے حامیوں کی بڑی تعدادکے بنارس آنے سے یہاں مہا سنگرام کا ماحول بنا ہوا ہے۔ گنگا اشنان کا پن کمانے ، درشن پوجن اور کاروبار کے بہانے سے یہاں پہنچ رہے ہیں۔ مسلسل بڑھتی بھیڑ سے ہوٹل، لانج، دھرم شالائیں، گیسٹ ہاؤس کی بات تو دور یہاں آشرم تک فل ہیں۔ نریندر مودی کی جارحانہ چناؤ کمپین سے کانگریس لیڈر شپ کافی خوفزدہ ہے۔ جس طرح سے مودی نے پرینکا گاندھی کی ایک رائے زنی کے جواب میں بہت ہی سیاسی چالاکی سے ذات کا داؤ چلا ہے۔ اس سے کانگریس نے اب کاشی میں مودی کو گھیرنے کی قواعد تیز کردی ہے۔ امیٹھی میں ووٹنگ کے بعد کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے مودی کو چنوتی دینے کیلئے بنارس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بنارس میں راہل گاندھی چناؤ کمپین کے آخری دن روڈ شو کریں گے۔ اس کے علاوہ کانگریس پارٹی کی اس سیٹ پر ماحول بنانے کے لئے سرکردہ لیڈروں کی فوج اتارنے کی بھی اسکیم ہے۔ کانگریس بنارس کے لوگوں کو لبھانے کے لئے تجربے کار اور نوجوان لیڈروں کو بھیجنے کی تیاری میں لگی ہے۔ ان چہروں میں کانگریس کے کئی وزرائے اعلی مرکزی وزرا اور راہل برگیڈ کے ممبر شامل ہوں گے جن لیڈروں کے کاشی پہنچنے کا امکان ہے ان میں ہریانہ ، اتراکھنڈ اور ہماچل کے وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا، ہریش راوت، ویر بھدر سنگھ کے علاوہ سچن پائلٹ ،جوتر ادتیہ سندھیا اور دپیندر ہڈا قابل ذکر ہیں۔ خیال رہے کہ جیسے بنارس میں مودی اور کیجریوال نے ایک سما باندھا ہے اسے دیکھتے ہوئے پارٹی کو لگ رہا ہے کہ وہ کمپین میں پچھڑ گئی ہے۔اسی کمی کو پورا کرنے کے لئے بنارس میں پوری طاقت جھونکنے کا پلان بنا ہے۔عام آدمی پارٹی کے ورکر گھرگھر جاکر ووٹروں سے ذاتی طور پر ملنے کی کمپین چلائے ہوئے ہیں۔ اروند کیجریوال کی حکمت عملی صاف ہے کہ ذاتی طور پر ملنے اور بوتھ مینجمنٹ عام آدمی پارٹی کے سینئر لیڈرنے کہا کہ بی جے پی مودی لہر کے بوتے جیتنے کا دعوی کررہی ہے وہ بڑی بڑی ریلیاں کررہی ہے۔ خوب اشتہار دے رہی ہے ہم اس میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہم ووٹروں سے رابطہ قائم کر حکمت عملی پر کام کررہے ہیں۔ آخری وقت میں بھی گھر گھر جانا اور نکڑسبھائیں ہماری حکمت عملی ہے۔ دہلی میں یہ تجربہ کامیاب ہوچکا ہے اور بنارس میں بھی یہ کامیاب ہونے والا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے بنارس میں اس وقت تین ہزار سے زیادہ رضاکار موجود ہیں۔ ایک والنٹیئر ہر روز 20 سے30 لوگوں کو پارٹی کے بارے میں مطمئن کررہا ہے۔ ’آپ‘ کے نیتا اروند کیجریوال خود زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مودی جیسے نیتا تو دور سے ہاتھ ہلا رہے ہیں تو کیجریوال لوگوں کے پاس جاکر ان سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔’آپ‘ نیتاؤں کو امید ہے کہ ذاتی ملاقات سے اچھا اثر ہوگا۔ ویسے عام آدمی پارٹی کے امیدوار اروند کیجریوال کے لئے کمپین پر نکلنے میں کئی طرح کے سوالوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم کیجریوال کے مخالف نہیں ہیں لیکن کیجریوال یہاں مودی کا متبادل نہیں ہوسکتے۔دہلی کی 49 دنوں کی کیجریوال سرکار میں ان کے ساتھی منیش سسودیا کا سامنا ماتھے پر چندن لگائے ایک دوکاندار سے ہوتا ہے۔ وہ مودی کا کٹر حمایتی ہے اور تپاک سے کہتا ہے کہ انہوں نے (کیجریوال) نے مودی کے خلاف چناؤ لڑنے کا فیصلہ لے کر غلطی کی انہیں اپنی ضمانت گنوانی پڑے گی۔ یہ حمایتی کہتا ہے جب کیجریوال کا کوئی موقعہ ہی نظر نہیں آتا تو میں انہیں ووٹ کیا دوں؟ اس کٹر حمایتی سے منیش سسودیا نے مودی کو حمایت دینے اور کیجریوال کو انکار کرنے کی وجہ بتانے کو کہا تو اس کے جواب میں دوکاندار سری کانت پوتدار کہتے ہیں کہ بھاجپا مودی کے سبب ہی 300 سیٹیں جیتے گی اور بہتر مستقبل دے گی۔سسودیا بعد میں ایک اور سوال داغتے ہیں آخراس غریب شہر کو بھاجپا نیتا کس طرح جدید رنگ میں ڈھالیں گے تو پوتدار بولتے ہیں کہ بہتر مستقبل کیا ہوگا؟ میں کیجریوال کے خلاف نہیں وہ ایک اچھے انسان ہیں لیکن وہ متبادل نہیں بن سکتے۔ میں نے اپنے سہ روزہ کاشی دورہ میں پایا کے قریب پانچ ہزار سال پرانے بابا وشوناتھ کی نگری وارانسی میں چناوی سرگرمی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پوروانچل کی اس دھارمک نگری میں صرف چناؤ ہی نہیں لڑا جارہا ہے بلکہ سیاسی پارٹیوں کا یہ آخری مقصد ہے جیت۔ کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی ذریعے سے اس کے لئے سب کچھ جائز ہے۔ پرانی دشمنی بھلا کر اپنے دشمنوں سے ہاتھ ملایا جارہا ہے۔ کئی برسوں سے جیل میں بند قتل کے ملزم مافیہ مختار انصاری کی پارٹی ’قومی ایکتا دل‘ کے ذریعے کانگریس کے دبنگ امیدوار اجے رائے کو حمایت کی کاشی کے لوگوں خاص کر مسلمانوں میں جم کر مخالفت ہورہی ہے۔ انصاری کی یہ حمایت اجے رائے کے گلے کا پھندہ بنتی جارہی ہے کیونکہ محض اقلیتوں میں ہی نہیں بلکہ آس پاس کی سیٹوں پر بھومیاروں میں زبردست ناراضگی ہے۔ یہ وہی مختار انصاری ہیں جنہوں نے کچھ وقت پہلے اجے رائے کے بڑے بھائی اودھیش رائے اور چچیرے بھائی کرشن آنند رائے کا قتل کیا تھا۔کرشن آنند رائے غازی پور سے بھاجپاایم ایل اے تھے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قتل کانڈ کے مقدمے میں اجے رائے خود گواہ بھی ہیں۔ وارانسی، غازی پور کے ووٹر اس بات کو لیکر ناراض ہیں جس قاتل اور بدمعاش نے ان کے خاندان والوں کا قتل کیا اسی کی حمایت سے اجے رائے پارلیمنٹ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ وارانسی میں کانگریس اور اجے رائے کے خلاف یہ ماحول بنانا شروع ہوا ہے۔ کانگریس چناؤ جیتنے کے لئے مسلم ووٹروں سے حمایت لے رہی ہے اس سے نہ صرف ہندوووٹروں کے پولارائزیشن ہونے کا امکان ہے بلکہ اجے رائے اپنی ذات کوتھونپنے والے بن گئے ہیں۔ کل میں بھاجپا اور نریندر مودی کی بنارس میں چل رہی چناؤ تیاریوں کا ذکر کروں گا۔(جاری)
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں