بینی پرساد،اکبر ڈمپی و آ ر پی این سنگھ کی ساکھ داؤ پر!

آج یعنی7 مئی کو آٹھویں مرحلے کے ہورہے چناؤ میں اترپردیش کے کئی اہم پارلیمانی حلقوں میں چناؤ ہونا ہے۔ ان میں فیز آباد، گونڈا، پھولپور جیسے اہم حلقے اس مرحلے میں آر ہے ہیں۔ ایودھیا کی تمام ساکھ اپنے اندر سمیٹے فیز آباد پارلیمانی سیٹ کی بھاجپا کے لئے ایک الگ ہی اہمیت ہے۔ پچھلی لوک سبھا اور پھر ایودھیا سے اسمبلی چناؤ گنوا چکے بھاجپا کے للو سنگھ کو پھر امید ہے۔ اس چناؤ میں ایودھیا کے کئی بڑے اکھاڑوں کے سنتوں کی بھی خاص اہمیت رہے گی۔ پہلے تین مرحلوں کے چناؤ میں مودی لہر کا یہاں بھی اثر پڑنا فطری ہی ہے لہٰذا دیگر مقامات کی طرح فیز آباد میں بھی بھاجپا امیدوار سے زیادہ گلی محلوں میں تذکرہ مودی کا ہی ہے۔ یہاں مسلم ووٹ اچھے خاصے ہیں نہ تو کانگریس اور سپا کے روایتی ووٹ ہیں، براہمن اگر موجودہ ایم پی کانگریس کے تھے نرمل کھتری کے ساتھ ساتھ چلے گئے تو وہ جیت سکتے ہیں کیونکہ ان کی برادری کا دبدبہ ہے۔ بھاجپا ۔کانگریس کے درمیان سپا کے مترسین یادو بھی سخت ٹکر دیں گے۔ ملکی پور سے ایم ایل اے مترسین یادو سپا کے روایتی ووٹ بینک کے لئے مفید امیدوار ہیں۔ بسپا امیدوار جتندر سنگھ ببلو کی مجرمانہ ساکھ ان کے راستے میں روڑا بن سکتی ہے۔ فیز آباد میں 25 فیصدی دلت ووٹ ہیں کل ملاکر یہاں مقابلہ سخت ہے۔بھاجپا کے لئے فیز آباد جیتنے کی خاص اہمیت ہے۔ گونڈا پارلیمانی سیٹ پر کیرتی وردھن 2004 سے یہا سپا سے ایم پی بنے تھے تو پچھلی مرتبہ لوک سبھا میں بسپا کے ٹکٹ پر جیت کر پہنچے تھے۔ اس بار وہ بھاجپا کے ٹکٹ پر تال ٹھونک رہے ہیں۔ مودی لہر کے سہارے 18 ویں لوک سبھا میں پہنچنے کا خواب لئے کیرتی وردھن سنگھ اپنی ہر ریلی میں سپا کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ علاقائی ایم پی بینی پرساد ورما پانچ سال کے اپنے کام کی رپورٹ کارڈ رکھ رہے ہیں۔ سپا کی امیدوار نندتا شکلا اور بسپا سے احمد اکبر ڈمپی مقابلے میں ہیں۔ وہ بسپا کے روایتی ووٹ بینک کے علاوہ مسلمان ووٹوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں لیکن اس میں سیند لگا رہے ہیں بسپا سے 3-4 مہینے پہلے نکالے گئے مسعود عالم خاں ، وہ پیس پارٹی سے چناؤ میدان میں ہیں۔ کل ملا کر مقابلہ کانٹے کا ہے۔ بینی پرساد ورما، امن اور عدم تشدد کا پیغام دینے والے مہاتما بودھ کی مہا پرینوارن استھلی کشی نگر میں اس بار چناؤ دنگل زبردست ہے۔ یہاں کے ایم پی اور مرکزی وزیر مملکت کنور آر پی این سنگھ اس بار اپنے گھرمیں تین طرف سے گھرتے نظر آرہے ہیں۔ آر پی این سنگھ کا تعلق پڈرونا راج گھرانے سے ہے۔ ان کے والد جہاں اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کے قریبیوں میں سے شمار کئے جاتے تھے وہیں وہ خود راہل گاندھی کے قریبی مانے جاتے ہیں۔ بسپا نے یہاں پہلے براہمن امیدوار کی شکل میں ڈاکٹر سنگم مشر کو میدان میں اتارا ہے۔ بھاجپا نے پوروانچل کے سرکردہ سیاستداں رہے راج منگل پانڈے کے لڑکے اورگڈو پانڈے کو چناؤ میدان میں اتارکر 90 کی دہائی کی یاد تازہ کردی۔ 1999ء سے یہ لوک سبھا میں مسلسل یہاں سے بھاجپا کا سکہ چلا ہے۔ اس حلقے کی سب سے زیادہ مارا ماری مسلم ووٹوں کو لیکر ہے۔ کانگریس ۔ سپا اور بسپا تینوں کے ذریعے اقلیتوں کو رجھانے کی پوری کوشش جاری ہے لیکن ان سب کے درمیان مرکزی وزیر مملکت آر پی این سنگھ کے خیمے کا ماننا ہے کہ اقلیتی ووٹر مودی لہر کی دھار میں کشی نگر پارلیمانی حلقے میں آخری وقت میں کانگریس کے ساتھ جڑیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟