کاشی میں گونجا نعرہ’ہر ہر مودی، گھر گھر مودی‘

نریندر مودی نے اپنی وارانسی ریلی میں ایڈریس کی شروعات کی تھی کہ سومناتھ سے وشواناتھ کا لمبا سفر انہوں نے طے کیا ہے۔ اس وقت یہ بات کسی کو سمجھ میں نہیں آئی کہ مودی کی نظر بنارس سیٹ پر ہے۔ انہوں نے کاشی کو مرکز میں رکھ کر اترپردیش اور بہار میں کئی ریلیاں کی تھیں۔ اس سے لگا تھا کہ ان کا منصوبہ اور پکا ارادہ ہے کہ چناؤ لڑنا ہے تو شیو کی اس نگری سے۔ بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی کے لئے آر ایس ایس کنبہ آخر کار بنارس کو ہی کیوں مفید مان رہاتھا اس کے پیچھے کئی وجہ ہیں۔ بنارس میں حالانکہ 18 فیصدی مسلمان ووٹر ہے لیکن آر ایس ایس امید ہے کہ باقی82فیصدی ووٹ کا پولارائزیشن ہوجائے گا اور وہ ایک مشت مودی کو ملیں گے۔ دراصل وارانسی بھاجپا کے لئے ہمیشہ ہی ایک اہم اشو رہا ہے لیکن وقتاً فوقتاً اسے خطرے کی گھنٹی میں سنائی دیتی رہی ہے۔ اس چناؤ میں بھی آر ایس ایس کچھ خطرہ دکھائی دے رہا ہے کیونکہ مشن 2014ء فتح کرنے کے لئے وہ وارانسی سمیت پوروانچل کی24 اور بہار کی 9 ، مدھیہ پردیش کی ایک درجن سیٹوں پر اپنی نظر لگائے ہوئے ہیں اور وہ مودی کو یہاں سے لڑ کر پورے خطے میں بھگوا اثر بنانا چاہتی ہے۔نریندر مودی کے وارانسی سے چناؤ لڑنے کا اعلان ہونے کے بعد بلا شبہ یہ دیش کی سب سے ہاٹ سیٹ بن گئی ہے۔ بھاجپا کا خیال ہے کیجریوال اگر امیدوار بنتے ہیں تو بھی وارانسی سے مودی کی جیت پکی ہے۔ ساتھ ہی پوروانچل کی30 سیٹوں پر بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔مودی کے لئے صرف ایک خطرہ تھا اگر موجودہ ایم پی ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی ناراض ہوجاتے تو اس کا غلط پیغام جاتا لیکن جوشی کو منا ہی لیا گیا۔ وارانسی کے ورکروں میں جوش بھرے نعرے لگ رہے ہیں۔’ہر ہر مودی۔گھر گھر مودی‘۔ وارانسی سیٹ پر مسلم ووٹ اچھی خاصی تعدادمیں ہیں لیکن مسلم ووٹوں کا اگر پولارائزیشن ہوا تو ہندو ووٹ کے یکجا ہونے سے مودی کو فائدہ ہوگا۔ او بی سی کے ووٹوں پر بھی مودی کیمپ کی نظر رہے گی۔ پچھلے چناؤ میں ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی جیت محض17 ہزار ووٹ کے فرق سے ہوئی تھی جو کسی پارلیمانی حلقے کے لئے حاشیے والی کامیابی مانی جاسکتی ہے لیکن مودی کے کھڑے ہونے سے یہاں کے حالات یقیناًبھاجپا کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں۔اترپردیش 80 سیٹوں والا صوبہ ہے اگر دہلی کا اقتدار کی چابی ہے تو گنگا کے ٹٹ پر بسی شیو نگری وارانسی دور قدیم سے ہی ایک پوتر استھل کی شکل میں کروڑوں ہندوؤں کی آستھا کا مرکز ہے۔ ہندوتو کی لہر پر بہنے والے نریندر مودی اب زبان کھولیں بھی نہ لیکن وہ اپنا پیغام بھیجنے میں کامیاب رہیں گے۔ پارٹی کے پی ایم امیدوار کی شکل میں مودی پہلی بار گجرات کے دائرے سے نکل کر دیش کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش کے ساتھکلچر سے ہی نہیں بلکہ جغرافیائی طور سے بھی وابستہ ہورہے ہیں جس کا بڑا فائدہ بھاجپا کو مل سکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال اپنی چناؤ ریلیوں میں اکثر کہتے آئے ہیں کہ مودی جہاں کہیں سے بھی کھڑے ہوں گے وہ وہیں سے ان کے مقابلے پر چناؤ لڑیں گے اور انہیں ہراکر ہی دکھائیں گے۔ کیجریوال جی مودی جی تو کھڑے ہوگئے ہیں اب آپ کی باری ہے۔ ہمیں لگتا ہے اس بار پھر کیجریوال تھوک کر چاٹیں گے۔ وہ بھاجپا سے مقابلہ کرنے کے لئے ماہر ہوچکے ہیں۔ سنئے اب کیجریوال کیا فرماتے ہیں۔ بنگلورو میں ایتوار کو ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کیجریوال نے کہا ان کی پارٹی چاہتی ہے کہ وہ مودی کے خلاف چناؤ لڑیں۔ میں اس چنوتی کو قبول کرنے کو تیار ہوں لیکن اس چناؤ کو میں ابھی قبول نہیں کرتا۔میں وارانسی جاؤں گا 25 مارچ کو وارانسی میں منعقدہ ریلی میں اس بات کا اعلان کریں گے اور لوگوں کی رائے جانیں گے۔ وارانسی کے لوگ جوکہیں گے وہی آخری فیصلہ ہوگا۔اگر وارانسی کے لوگ مجھے ذمہ داری دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو میں تہہ دل سے اس کو قبول کروں گا۔ میں دیش کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ 25 مارچ کو وارانسی آئیں۔ انہوں ن ے کہا دوستوں اور پارٹی کی میٹنگ ہوئی ہے۔ پارٹی لیڈروں نے مجھے نریندر مودی کے خلاف چناؤ لڑنے کو کہا میں جانتا ہوں یہ بڑی چنوتی ہے۔ ہم پیسہ کمانے کے لئے اقتدار نہیں لینے آئے ہیں، ہم دیش کے لئے قربانی دینے کے لئے آئے ہیں۔ بھگت سنگھ کی طرح میں دیش کیلئے قربانی دے پایا تو یہ میرے لئے خوش قسمتی ہوگی۔ دلچسپ ہوگا اگر کیجریوال مودی کے خلاف چناؤ لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ویسے تو ہمیں نہیں لگتا کہ وہ یہ ہمت دکھا پائیں اور آخر میں یہ ہی کہیں گے کے میں ایک سیٹ تک محدود نہ رہوں اور پورے دیش میں کمپین چلاؤں اس لئے میں وارانسی سے چناؤ نہیں لڑوں گا۔ لیکن اگر وہ لڑتے ہیں تو دیکھنا یہ ہوگا کہ جس مسلم ووٹ پر وہ اتنی امید لگائے ہوئے ہیں وہ کس طرف جائے گا؟ پچھلے چناؤ میں جوشی سے مات کھا چکے دبنگ مختار انصاری اس بار بھی وہاں سے اپنی قسمت آزمانے کی تیاری میں ہیں، کیا انہیں اپنے فرقے کی حمایت ملے گی یا سیاسی فائدے کے نام پر کیجریوال مسلم ووٹ بٹور پائیں گے؟ اقلیتی ووٹوں کے لئے آپ بھی تمام طرح کی بازی گری میں لگی ہوئی ہے۔ وارانسی کے نتیجے اس کے لئے بھی مستقبل طے کریں گے۔ مودی بنام کیجریوال کی جنگ میں سپا یا بسپا ، کانگریس یہاں کتنی ٹک پاتی ہیں یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟