لوک سبھا کی 72 سیٹوں پر فیصلہ کن رہے گا مسلم ووٹ!
اس چناؤ میں کانگریس سے زیادہ عام آدمی پارٹی مسلمانوں سے رابطہ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ پارٹی مسلمانوں سے اپنی بات یہاں سے شروع کررہی ہے کہ ان کو ناپسند آنے والے نریندر مودی کو ان کے گھر چنوتی دینے کا کام صرف اور صرف کیجریوال نے کیا ہے۔ عام آدمی دیش کے مسلمانوں کو رجھانے کے لئے نریندر مودی کا ہوا دکھا کر ایک دہشت کا ماحول بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ کام صرف عام آدمی پارٹی نہیں کررہی ہے بلکہ کانگریس۔ سماجوادی پارٹی بھی اس میں پیچھے نہیں ہے۔ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے تو مودی کا نام لیکر ان پر کرارا حملہ کرتے ہوئے کہا کہ 2002ء کے گجرات دنگوں کے لئے مودی کو کلین چٹ نہیں دی جاسکتی۔ اس کی بات کرنا ناسمجھی کی نشانی مانا جاسکتا ہے۔ فساد کے دوران انتظامیہ کی واضح اور لاپروائی کے لئے مودی سرکار کی عدلیہ جوابدہی طے ہونی چاہئے۔ دیش بھر سے کل543 لوک سبھا سیٹوں میں سے 72 ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن رول میں ہے۔ حالانکہ مسلم اکثریتی آبادی والی ان سیٹوں پر جیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم ووٹروں کے ووٹ بٹنے کے چلتے ان پارٹیوں کو بھی فائدہ پہنچا ہے جنہیں زیادہ تر مسلم ووٹ عام طور پر پسند نہیں کرتا۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں ان سیٹوں میں صرف 19 مسلم امیدواروں نے ہی جیت درج کی ہے جبکہ17 سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور25 سیٹوں پر کانگریس نے کامیابی حاصل کی۔ دیش کی سب سے زیادہ گنجان مسلم آبادی والی 22 سیٹیں ہیں۔ ان میں بارہمولہ(جموں وکشمیر) 97 فیصد، اننت ناگ 95.5 فیصد مسلم آبادی ، لکشدیپ 95 فیصدی، سرینگر90فیصدی، کشن گنج (بہار) 67فیصدی، جنگیپور(مغربی بنگال) 60 فیصدی، مرشد آباد( مغربی بنگال)59فیصدی، رام گنج 56فیصدی، چھبری (آسام)56 فیصدی، ملاپورم(کیرل) 56فیصدی، رامپور( اترپردیش)50فیصدی، لداخ 46فیصدی، کریم گنج 45فیصدی، بھہیڑ پور44فیصدی، بشیر ہٹ 44 فیصدی، مالدہ 41 فیصدی، مراد آباد 40 فیصدی، بھونڈی 39فیصدی، سہارنپور40 فیصدی، بجنور (یوپی) 39 فیصدی، بارپیٹا (آسام) 39 فیصدی وغیرہ وغیرہ ۔ ان22 سیٹوں میں سے 12 سیٹوں پر کانگریس نے جیت درج کی باقی علاقائی پارٹیوں کے امیدوار جیتے۔20 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم آبادی25فیصدی سے اوپر ہے اور 30 فیصدی سے کم ہے۔22 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم آبادی20 فیصدی سے زیادہ اور25 فیصدی سے کم ہے۔ دیش کی اقلیتی آبادی کا یکمشت ووٹ پانے کے لئے یوپی اے سرکار نے پہلے اور دوسرے عہد میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔پچھلے 60 برسوں میں یوپی اے سرکار نے اقلیتوں کی ترقی کے لئے بنیادی ڈھانچے اور مختلف اسکیموں پر 11544 کروڑ روپے خرچ کرنے کا دعوی کیا ہے۔ویسے تو دیش کے ہر حصے میں اقلیتیں موجود ہیں لیکن دیش میں سیاستدانوں کے لئے اقلیتوں کا مطلب مسلمانوں سے ہوتا ہے۔ کانگریس پارٹی کی ساری توجہ مسلمانوں پر ہے، سکھوں ،جینیوں، عیسائیوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں کے انہیں ووٹ بینک کی طرح مان لیا جائے لیکن مسلمان قریب 14 فیصد ہیں۔ دیش کے90 ضلع مسلم اکثریتی ہیں ان میں سے72 لوک سبھا سیٹوں پر مسلم ووٹ ہارجیت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی نائب صدر مختار عباس نقوی نے حال ہی میں راجستھان کے تجارا میں شہید حسن خاں میواتی کے شہیدی دیوس پر ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ خود ڈرے ہوئے لوگ (کانگریس۔ آپ) مودی کی ترقی کے ایجنڈے پر ڈر کا پلیتا لگا رہے ہیں جبکہ آج ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان مودی کا ڈر کہیں نہیں ہے اور ترقی کا چہرہ بن کر ابھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کانگریس اور ان کے کچھ سیکولر سورماؤں نے برسوں تک فرقہ پرستی اور سیکولرازم کے نام پر مسلم ووٹروں کو جم کر استعمال کیا اور ان کے اقتصادی ،سماجی اور تعلیمی مفادات کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہے۔ نقوی کا کہنا ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ مجرمانہ کام کیا ہے اور آج بھی نریندر مودی اور بھاجپا کا ڈر دکھا کر پھر اسی چال کو دوہرایا جارہا ہے جس سے ہندوستانی مسلمانوں کو ترقی کی دھارا سے کوسوں دور رکھا جاسکے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں