بھاجپا کی اندرونی چالبازیاں کہیں آخر میں بھاری نہ پڑجائیں؟

ہم نے ہر چناؤ میں ٹکٹوں کے بٹوارے کو لیکر جھگڑے ہوتے دیکھا ہے اس لئے اگر اس مرتبہ بھی لوک سبھا چناؤ کے ٹکٹوں کے بٹوارے پر ہنگامہ جاری ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہ تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں میں جاری ہے لیکن سب سے زیادہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے کہ دیش میں نریندر مودی کی ہوا بہہ رہی ہے اس لئے سبھی چاہتے ہیں کہ انہیں بھاجپا کا ٹکٹ ملے اور ہنگامے کی سب سے بڑی وجہ ہے باہری امیدوارکو تھونپنا۔ویسے اصولی طور پر آج تک مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ باہری امیدوار کون ہے؟ ہندوستان ایک جمہوری دیش ہے اور کوئی بھی شخص دیش کے کسی کونے سے چناؤ لڑنے کے لئے آزاد ہے۔ آئین میں یہ کہیں نہی لکھا ہوا ہے کہ ہر شخص محض جس ریاست میں پیدا ہوا ہے وہیں سے چناؤ لڑ سکتا ہے؟ ایک شخص دہلی میں پیدا ہوا ہے اور وہ چنئی سے بھوپال اور بھوپال سے جموں سمیت کہیں سے بھی چناؤ لڑ سکتا ہے لیکن پارٹیوں کے ورکروں کو یہ بہانہ مل گیا ہے کہ اگر ہم بھارتیہ جنتا پارٹی میں ٹکٹوں کے بٹوارے کے سبب ناراضگی کی بات کریں تو کچھ جائز ہے اور کچھ بلا وجہ کی بات کرتے ہیں۔ اگر جنرل وی کے سنگھ کی غازی آباد میں مخالفت ہو رہی ہے تو یہ غلط ہے۔ جنرل وی کے سنگھ فوج کے سابق چیف ہے۔ غازی آباد راجناتھ سنگھ کی جیتی ہوئی سیٹ ہے۔ ویسے تو ان کے پھر غازی آباد سے ہی لڑنے کی امید تھی لیکن یہ سیٹ چھوڑ دی یا بھاگ گئے تو اگر اس سیٹ سے جنرل وی کے سنگھ لڑ رہے ہیں تو غلط کیا ہے؟ ڈاکٹر ہرش وردھن مشرقی دہلی سے جیتے تھے اب وہ چاندنی چوک سے لڑ رہے ہیں تو کیا یہ غلط ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ بھاجپا میں ٹکٹ بٹوارے کو لیکر سب سے زیادہ گڑ بڑی پارٹی لیڈر شپ نے اور پارلیمانی بورڈ نے کی ہے۔ پارٹی صدر راجناتھ سنگھ کیونکہ غازی آباد سیٹ بدلنا چاہتے تھے اس لئے اس سلسلے کو انہوں نے شروع کیا۔ وہ لکھنؤ سے لڑ رہے ہیں۔ لکھنؤ میں موجودہ ایم پی لال جی ٹنڈن اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ لکھنؤ جیت اٹل بہاری واجپئی کی ہوا کرتی تھی اس لئے اس کی خاص اہمیت ہے ایک وقت یہ بھی بات اڑی کے شاید نریندر مودی یہاں سے چناؤ لڑیں۔دراصل بھاجپا چیف نے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ پہلے تو انہوں نے پارٹی اور اپنے حریفوں کو مات دینے کی نیت سے ٹکٹ بٹوارے میں یا ان کی من پسند سیٹ سے ٹکٹ کاٹا ان میں( شتروگھن سنہا، نوجوت سنگھ سدھو، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی) پھران کی جگہ اپنے حمایتیوں کو ٹکٹ دینے کی کوشش کی۔ ان کے مخالفوں کے حمایتیوں کا بھی صفایا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کل میں ایک ٹی وی چینل پر تھا۔ ایک سیاسی مبصر کا کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اندر ایک طبقہ ایسا ہے جو نریندر مودی کو وزیر اعظم بننے سے روکنے کی غرض سے پارٹی کی جیتی سیٹوں پر کنٹرول قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ اتنی سیٹیں نہ آئیں کہ مودی پی ایم بن سکیں۔اگر بھاجپا کی سیٹیں بہت کم رہ جاتی ہیں تو اس طبقے کو لگتا ہے کہ نریندر مودی کو دوسری این ڈی اے پارٹیاں بطور پی ایم قبول نہیں کریں گی اس صورت میں بھاجپا کا کوئی دیگر لیڈر جو سب کو این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کو لیکر چلے اس پر متفق ہوجائیں۔ مجھے لگا کہ اس بات میں کچھ دم ہے کبھی کبھی پارٹی لیڈرشپ کی مجبوری بھی ہوتی ہے کہ پردیش میں جو تین ناموں کا پینل آیا اس پر ایک نام پر اتفاق رائے بن پاتی ہے۔ اس لئے جھگڑا نپٹانے کے لئے کسی باہری نام کو اعلان کردیا جاتا ہے تاکہ ورکر آپس میں نہ لڑیں اور مل کر چناؤ میں کام کریں لیکن اس کا الٹا اثر ہو سکتا ہے۔ ورکر مایوس ہوکر گھر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہر بات یہ ہی ہوتا ہے پانچ سال تک ہم مرتے کٹتے رہتے ہیں تو جب وقت آتا ہے تو ٹکٹ کسی باہری شخص کو دے دیا جاتا ہے۔ پھر ہر پارٹی میں خاص طور سے اس مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں بہت سے لوگ پارٹی سے باہر کے شامل ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ دینا پڑتا ہے کیونکہ انہیں اسی وعدے پر لایا گیا ہے۔ پھر ہر پارٹی چاہتی ہے کہ وہ ہر سیٹ پر جیتنے والے امیدوار کو اتارے چاہے وہ باہری ہو یا داغی ہو کچھ بھی ہو بس سیٹ نکال سکے۔ باہری امیدواروں کو تھونپنے کا فائدہ بھی ہے نقصان بھی ہے۔ سوائے عام آدمی پارٹی کے جو پہلی بار چناؤ لڑ رہی ہے اور سبھی پارٹیوں میں اس کی موجودگی سے ناراضگی ہے کچھ میں کم کانگریس اوربھاجپا میں زیادہ دیکھی جارہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!