بھاجپا۔ کانگریس دونوں کیلئے ان صوبیداروں سے نمٹنا کڑی چنوتی ہے!

کچھ سیاستدانوں کا ماننا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نریندر مودی کی قیادت میں بیشک اگلے لوک سبھا چناؤ میں سب سے بڑا دل بن کر ابھرے لیکن سرکار وہ تبھی بنا سکے گی جو دوسرے چھوٹے دل این ڈی اے کا سمرتھن کرنے کو تیار ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ این ڈی اے اپنے بوتے پر 272+ سیٹیں نہیں لاسکتی۔ حالانکہ دیگر تجزیہ کاروں کا دعوی ہے کہ دیش میں مودی کی لہر ہے اور این ڈی اے اپنے بوتے پر بنا لے گی۔ لگتا تو یہ ہی ہے کہ کیندر کی اقتدار کی دوڑ میں شامل دونوں بڑے سیاسی دل بھاجپا اور کانگریس کو آئندہ لوک سبھا چناؤ میں علاقائی صوبیداروں سے کڑی چنوتی ملے گی۔ اگلی سرکار کے قیام کے راستے میں جہاں یہی دل ان کے راستے کی رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں وہیں ان کے سمرتھن سے ہی نئے پردھان منتری کی تاجپوشی ہوسکتی ہے۔ان سب کے بیچ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی بھی دونوں بڑے دلتوں کے لئے ووٹ کٹوا ثابت ہوسکتی ہے۔ اترپردیش اور بہار کی سیاسی تصویر میں پہلے بتاچکا ہوں۔ آج بات کریں گے دیگر ریاستوں کی۔گزشتہ چناؤ کو دیکھیں تو کانگریس کو کیندر کے اقتدار میں پہنچانے میں دکشن کی دو ریاستوں آندھرا پردیش اور تاملناڈو کا بڑا کرداررہا تھا۔توبھاجپا کے پردرشن کے لئے اترپردیش کا بڑا رول رہا تھا۔وہیں اس بار کانگریس کے لئے آندھرا پردیش اور تاملناڈو وائرل ثابت ہوسکتے ہیں۔ آندھرا پردیش جہاں لوک سبھا کی 42 سیٹیں ہیں وہاں کانگریس کے لئے تیلگودیشم پارٹی اور جگن کی رہنمائی والی وائی ایس آر کانگریس اس کی راہ میں روڑا بن سکتی ہے۔ ریاست کے بٹوارے کا فیصلہ کانگریس کے لئے کتنا فائدہ مند ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس فیصلے سے پیدا ہوئی سیماندھرا کی حالت کو تلنگانہ سے بھرپائی کرنے کیلئے کانگریس کی امیدیں ٹکی ہوئی ہیں۔تاملناڈو میں جے للتا کی انا درمکھ نے ریاست کی سبھی 39 سیٹوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان کرکے صاف اشارہ دے دیا ہے کہ وہ چناؤ سے پہلے کسی سے گٹھ بندھن شاید نہ کریں۔ 2009 کے چناؤ میں کانگریس ڈی ایم کے کی رہنمائی والے لوک تانترک ڈی پی اے کے ساتھ گٹھ بندھن کرکے16 سیٹوں پر چناؤ لڑی تھی۔ جس میں سے 9سیٹوں پر اسے جیت نہیں ملی تھی۔ اس بار ڈی ایم کے نے اب تک یہی اسٹینڈ لے رکھا ہے کہ وہ کانگریس سے گٹھ بندھن نہیں کرے گی۔ مرکزی فائننس منسٹر پی چدمبرم نے کہا ہے کہ اگر گٹھ بندھن نہیں ہوتا تو وہ سبھی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کریں گے۔ وہیں یہاں کے کانگریس کو نقصان ہوسکتا ہے جہاں تک بھاجپا کا سوال ہے اس کے لئے تاملناڈو میں ایک بھی سیٹ جیتنا مشکل دکھ رہا ہے۔ پشچمی بنگال جہاں گذشتہ چناؤ میں کانگریس نے ترنمول کانگریس کے ساتھ چناؤ لڑا تھا اس بار الگ الگ چناؤ میدان میں ہوں گے۔ ریاست کی 42 پارلیمنٹ سیٹوں کے لئے میدان میں اترنے والے چاروں اہم سیاسی دل نے اس بار لوک سبھا چناؤ میں پہلی بار کوی گورو رابندر ناتھ ٹیگور کے ’ایکلا چلو رے‘ گیت کو حقیقت بنا دیا ہے۔یہ پہلی بار ہے کہ جب ترنمول کانگریس، کانگریس ،کمیونسٹ پارٹی اور بھاجپا بنا کسی تال میل یا گٹھ جوڑ کے میدان میں اترے ہیں۔ ترنمول کانگریس کی سبھی سرووں میں مضبوط پوزیشن دکھائی گئی ہے۔ممتا کی سونامی میں دیگر گٹھ بندھن یا دل پتہ نہیں کتنا ٹک پائیں گے۔ گذشتہ چناؤ میں ممتا کے کھاتے میں 18 سیٹیں آئیں تھیں۔ ریاست میں بھاجپا مودی لہر پر بیٹھ کر اپنا کھاتہ کھولنے کے فراق میں ہے۔اڑیسہ جہاں21 سیٹیں ہیں بیجو جنتادل ، بھاجپا اور کانگریس دونوں کے لئے بڑی چنوتی پیداکرے گا۔ گذشتہ چناؤ میں اس کے کھاتے میں 14 سیٹیں آئی تھیں۔مہاراشٹر میں علاقائی پارٹیوں میں جہاں شیو سینا ، بھاجپا اور منسا بھاجپا کے ساتھ ہیں وہیں راشٹریہ کانگریس پارٹی۔ کانگریس مل کر چناؤ میدان میں اتریں گے۔ ’آپ‘ پارٹی بھی ریاست میں اپنا کھاتہ کھولنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ کل ملاکر اترپردیش، بہار، تاملناڈو، آندھرا پردیش، پشچمی بنگال اور اڑیسہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں بھاجپا اور کانگریس دونوں کو علاقائی صوبیداروں سے پار پانا آسان نہیں ہوگا۔ دیش کی ان چھ ریاستوں کی264 سیٹوں پر بھاجپا اور کانگریس کا سیدھا مقابلہ ان صوبیداروں سے ہوگا۔ بھاجپا اور مودی کو اپنے 264+ مشن پر کامیاب ہونا ہے تو ان ریاستوں میں اپنا ٹھوس پردرشن کرکے کچھ سیٹیں لانی ہوں گی۔ اب بات کرتے ہیں نارتھ ایسٹ ریاستوں کی۔ بھاجپا کے لئے اچھی خبر سامنے آئی ہے جب اسم گن پریشد کے دو بڑے نیتا بھاجپا میں شامل ہوگئے۔ اسم گن پریشد کے سابق صدر چندر موہن پٹواری اور اعلی نیتا اور سابق وزیر ہتیندر ناتھ گوسوامی بڑی تعداد میں اپنے سمرتھکوں کے ساتھ بھاجپا میں شامل ہوگئے۔ ایک دیگر پیش رفت میں گورکھا مکتی مورچہ صدر بمل گورنگ نے اعلان کیا کہ ان کا سنگٹھن پشچمی بنگال میں بھاجپا کو دارجلنگ کی سیٹ پر سمرتھن کرے گا۔ غور طلب ہے کہ2009 میں جی جے ایم نے دارجلنگ سیٹ پر بھاجپا کا سمرتھن کیا تھا اور وہ کامیاب رہے تھے۔آسام میں بھاجپا پہلے ہی تین موجودہ سانسدوں سمیت پانچ امیدواروں کے نام کا اعلان کرچکی ہے۔ آسام میں کانگریس کی گگوئی کی رہنمائی میں کانگریس کی سرکار ہے اور کانگریس کو یہاں سے بہت امیدیں ہیں۔ دیگر ریاستوں میں بھی کانگریس کی حالت مضبوط ہے۔ کیرل کی 20 سیٹوں لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ اور برسر اقتدار کانگریس کی رہنمائی والی یو ڈی ایف کے درمیان کڑا مقابلہ ہے۔ ریاست میں اور قومی سطح پر لمبے وقت تک کمیونسٹ مورچے کے اہم سہیوگی دل آر ایس پی نے گٹھ جوڑ سے الگ ہونے کے اعلان سے وام مورچہ کمزور ہوا ہے۔پنجاب میں اہم مقابلہ بھاجپا۔ اکالی گٹھ بندھن اور کانگریس کے درمیان ہے۔ منجیت سنگھ بادل کی پارٹی کا حال ہی میں کانگریس کے ساتھ گٹھ بندھن ہوا ہے۔ اب بات کرتے ہیں جموں وکشمیر کی۔ جموں و کشمیر میں ایک جانب جموں علاقہ ہے اور دوسری طرف گھاٹی ہے۔ ریاست میں جموں۔ اودھم پور، سری نگر، اننت ناگ، بارہمولہ اور لداخ چھ سیٹیں ہیں۔ فی الحال پانچ سیٹیں کانگریس۔ نیشنل کانفرنس گٹھ بندھن کے پاس ہیں جبکہ ایک سیٹ پر آزاد امیدوار قابض ہے۔جموں میں ایک بھاجپا سمرتھک شاہ کہتے ہیں کشمیر اس بار اتہاس رچے گا ، بدلاؤ کی آندھی ہے، مودی ہی مودی ہے لیکن گھاٹی میں نہ تو بھاجپا کہیں ہے اور نہ ہی مودی ۔ یہاں کانگریس۔ نیشنل کانفرنس گٹھ بندھن کا بول بالا ہے۔ بھاجپا جموں اور اودھمپور سیٹیں جیت سکتی ہے۔ نریندر مودی کی وجہ سے ہندو ووٹر ایک جٹ ہوکر ووٹ کریں گے ایسی امید بھاجپا لگائے ہوئے ہے۔ میں نے ملک کی کچھ اہم ریاستوں کے بارے میں اختصار میں آپ کو جانکاری دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ ریاستیں نریندر مودی کے مشن 272+ میں اہم کردار نبھا سکتی ہیں۔ دیگر نارتھ اور سینٹرل بھارت میں تو بھاجپا مضبوط حالت میں ہے اصل چنوتی بھاجپا کے لئے ان ریاستوں میں ہے دیکھیں یہاں بھاجپا کا پردرشن کیسا ہوتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟