امریکہ کی داداگری اب بھارت کو قبول نہیں!
یہ پہلا واقعہ نہیں جب امریکہ کے ذریعے کسی ہندوستانی کو بے عزت کیا گیا ہو۔ یہ پہلی بار نہیں جب اپنے کسی ڈپلومیٹ کے نازیبہ برتاؤ کی وجہ سے بھارت کو نیچا نہیں دیکھنا پڑا ہو۔ نیویارک میں بھارت کی ڈپٹی ناظم العمور دیویانی کھوبرا گڑھے پر الزام ہے کہ انہوں نے نوکرانی کے ویزا درخواست میں جعلسازی کی اور امریکی قانون کے مطابق تنخواہ بھتے ، چھٹیاں وغیرہ نہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ نہ صرف غیر انسانی تھا اور بھارت کو بے عزت کیا گیا جو کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں۔ اپنی بچی کو اسکول چھوڑنے جارہی آئی ایف ایس افسر دیویانی کو امریکی پولیس نے پکڑ لیا اور کپڑے اتروا کر تلاشی لی۔ بدسلوکی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ اس کو جیل میں نشیڑیوں اور خطرناک قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا اور طوائفوں کے ساتھ قطار میں کھڑا کیا گیا۔ وہ اپنی بچی کو اسکول سے لانے کی دہائی دیتی رہی مگر امریکی پولیس نے نہیں سنی۔ اب سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا بھارت دیش کی نمائندگی کرنے والی کسی افسر کے ساتھ قانونی کارروائی کا یہ عمل جائز ہے؟ دوسرا سوال انسانی حقوق کا جھنڈا اٹھانے کا دعوی کرنے والے امریکہ یہ غیر انسانی رویہ بین الاقوامی قانون کے خلاف نہیں ہے؟ بغیر دوسرے فریق کی بات جانے صرف شبہ کی بنا پر کسی دوسرے دیش کے افسر کو پکڑ کر اس کے ساتھ خطرناک جرائم پیشہ لوگوں جیسا سلوک کیا جانا کیا بین الاقوامی قانونی کی خلاف ورزی نہیں ہے؟سابق صدر ڈاکٹر کلام کو بھی سکیورٹی کے نام پر بے عزت کیا گیا تھا۔ این ڈی اے کے عہد میں وزیر دفاع رہے جارج فرنانڈیز سے بھی بد تمیزی کی گئی تھی۔ فلم اداکار شاہ رخ خان کو2001 میں محض مسلم نام کے سبب روک لیا گیا۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی کہ اس دہشت گردانہ واقعہ کے بعد بنی اپنی فلم ’مائی نیم اس خان‘ کے پرموشن کے لئے شاہ رخ خان وہاں گئے تھے اور بھی کئی معاملے ہیں فطری طور پر بھارت میں اس معاملے میں زبردست ناراضگی ہونی ہی تھی۔ پہلے معاملوں میں بھارت نے مناسب جواب نہیں دیا لیکن اس مرتبہ حکومت ہند نے وجہ جو بھی رہی ہو ، طے کیا ہے کہ امریکہ کو اسی زبان میں جواب دیا جائے جو وہ اچھی طرح سے سمجھتی ہے۔ بھارت نے سخت اعتراض جتاتے ہوئے امریکی سفارتخانے اور اس کے حکام ملازمین پر سختی برتنی شروع کردی ہے اور خاص مراعات بھی لے لی ہیں۔ امریکی کونسل خانے کے ڈپلومیٹ مرکزی سرکار کی طر ف سے جاری شناختی کارڈ بھی لوٹانے کو کہا گیا ہے۔ امریکی ملازمین اور رشتے داروں کو دیش کے ہوائی اڈوں کے اسپیشل پاس بھی منسوخ ہوں گے۔ امریکی سفارتخانے میں تعینات ہندوستانی اسٹاف کی سیلری کی بھی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔ امریکی سفارتکاروں کے گھر کی نوکرانی اور نوکر کی تنخواہ کی جانکاری دینے کو کہا گیا ہے۔ اس سال کے علاوہ لوک سبھا اسپیکر میرا کمار اور وزیر داخلہ سشیل کمار شندے اور قومی صلاحکار شیو شنکر مینن، نریندر مودی اور راہل گاندھی نے امریکی نمائندہ وفد سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا ۔ ان اقدامات سے بھارت نے صاف پیغام دیا ہے کہ وہ ہندوستانی سفرا کے ساتھ بدتمیزی کا برتاؤ امریکہ ہلکے میں نہ لے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پہلے امریکہ چوری کرے اور پھر سینا زوری۔ امریکی افسر اب بھی کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے قانونی خانہ پوری کے تحت کام کیا ہے۔ ویزا میں غلطی اور نوکرانی کو واجب تنخواہ نہ دینا وغیرہ کے الزام آپ کسی عورت و کسی ڈپلومیٹ خاتون کے کپڑے اتروا کر سڑک پر ہتھکڑی لگاکر گھمانا کونسی قانونی کتاب میں لکھا ہوا ہے؟ چاہے وہ لوک سبھا کا چناؤ کا دبدبہ رہا ہو یا چاہے بھاجپا کا دباؤ رہا ہو اس بار بھارت سرکار نے سخت رخ اپنایا ہے۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے دادا سمجھے جانے والے امریکہ کے خلاف اتنی جرأت دکھانا واقعی میں کچھ حوصلہ تو دکھایا ہے۔ایسا ہی برتاؤپاکستان بھی ہندوستانی ڈپلومیٹ سے کرتا رہا ہے۔ امریکہ کو سخت پیغام دینے سے شاید پاکستان بھی سمجھ جائے۔ بس اب اور نہیں۔ جس طرح امریکہ اپنے قوانین کو سنجیدگی سے لیتا ہے اسی طرح اسے کارروائی کی مریادہ کا بھی دھیان رکھنا چاہئے۔ امریکہ کو بلا شرط معافی مانگنی چاہئے اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں