تیسری بار ڈاکٹر ہرش ودھن کے ہاتھ سے چیف منسٹر کی کرسی پھسلی!

اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے میری رائے میں بی جے پی نے دہلی میں مینڈیٹ کو ایک طرح سے انکار کردیا ہے۔بی جے پی کے سی ایم امیدوار ڈاکٹر ہرش وردھن نے لیفٹیننٹ گورنر کو آگاہ کردیا ہے کہ ان کی پارٹی کیونکہ اکثریت میں نہیں ہے اس لئے سرکار بنانے میں لاچار ہے اور انہوں نے دہلی کے شہریوں سے سرکار نہ بناپانے کے لئے معذرت کی اور کہا کہ صدر نے لیفٹیننٹ گورنر کو صاف ہدایتیں دی ہوئی ہیں کہ سرکار بنانے کا دعوی پیش کرنے والی پارٹی کو 7 دن کے اندر ایوان میں اکثریت ثابت کرنی ہوگی کیونکہ بھاجپا کے پاس اکثریت نہیں ہے تو وہ بھلا کیسے سرکار بنا سکتی ہے۔ سیاست میں نمبر اور شفافیت و صاف ستھری ساکھ کی دہائی دیتے ہوئے انہوں نے کہا بھاجپا کسی دیگر پارٹی میں توڑ پھوڑ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسی سرکار میں۔ بھاجپا نے وسیع معیار اور اونچے سیاسی پیمانے تو قائم کردئے ہیں لیکن آئے ہوئے اقتدار کو ٹھکرادیا۔ دہلی میں 15 سال اپوزیشن میں بیٹھنے کے بعد شاید بی جے پی کو بیٹھنے کی عادت سی ہوگئی ہے ۔ یہ ہی تو فکر ہے کانگریس اور بی جے پی میں ۔ کانگریس تو اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتی چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔ بی جے پی اقتدار لینے کو تیار نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ڈاکٹرہرش وردھن کے پاس اکثریت نہیں تھی لیکن اگر وہ اقلیتی حکومت بنا لیتے اور حلف لے لیتے تو شاید تاریخ میں اپنا نام درج کرا لیتے۔ سبھی چنے ہوئے نمائندے ممبر اسمبلی بن جاتے۔ حلف لینے کے بعد وہ لیفٹیننٹ گورنر کو خط لکھتے کہ ہم چاہتے ہیں کہ طاقت آزمائی کے بعد اگر ہمیں اکثریت ملتی ہے تو یہ دو تین قدم اٹھائے جائیں۔ بجلی کے شرحوں میں 30 فیصد کٹوتی ، پانی کے بلوں میں راحت اور 9 گیس سلنڈروں کی جگہ12 وغیرہ وغیرہ۔ اکثریت ثابت کرنے کی جب باری آتی تو ممکن تھا کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ نہ تو کانگریس اور نہ ہی آپ کے ممبر اسمبلی اور نہ ہی دہلی کی جنتا 6 مہینے میں دوبارہ چناؤ چاہتی ہے۔ ممکن ہے پولنگ کے دن کانگریسی ممبران اسمبلی میں کسی نہ کسی بہانے واک آؤٹ کرجاتے۔ کچھ بھی ہوسکتا تھا مان لو اکثریت ثابت نہ ہوتی تو استعفیٰ دے دیتے اور جنتا سے کہہ سکتے تھے کہ ہم تو عوام کے مفاد میں بہت کچھ قدم اٹھانا چاہتے تھے لیکن کانگریس اور آپ نے ہمیں ایسا کرنے سے روکا۔ دوبارہ چناؤ میں پارٹی کی پوزیشن اور مضبوط ہوتی۔ بی جے پی کو سرکار بنانی چاہئے تھی۔ اس نظریئے کے بہت سے بی جے پی کے ممبران بھی ہیں۔ دہلی بی جے پی پردھان وجے گوئل تو کھل کر بول رہے ہیں بی جے پی کو راجدھانی میں سرکار بنانے کی کوشش رکھنی چاہئے۔ ان کا کہنا ہے پارٹی کے چنے ہوئے زیادہ تر نمائندہ چناؤ نہیں چاہتے۔ اس کے علاوہ جنتا بھی دوبارہ چناؤ کے موڈ میں نہیں۔اور آپ پارٹی سے بات کرنی چاہئے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس چناؤ میں جیتے ہوئے زیادہ تر پارٹی امیدوار ان سے گزارش کررہے ہیں کہ دہلی میں دوبارہ چناؤ نہ ہونے دینے کے لئے کوشش جاری رکھنی چاہئے۔ بی جے پی کو سرکار بنانی چاہئے۔ اکثریت نہ ملنے کے باوجود بھاجپا کے ممبران کا یہ بھی دباؤ تھا کہ وہ سرکار بنائے لیکن پارٹی اعلی کمان کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔ ایسے ممبران کی تعداد ایک درجن سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔ بدھوار کی رات دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کی دعوت پر جمعرات کو بھاجپا کے اسمبلی پارٹی کے لیڈروں سے رابطے میں رہے حالانکہ اسمبلی پارٹی کے لیڈر ڈاکٹر ہرش وردھن صبح ہی چھتیس گڑھ کے لئے روانہ ہوگئے تھے لیکن ممبران نے اپنے پردیش سطح کے لیڈروں سے خواہش ظاہر کی۔ا ن لیڈروں نے پردیش پردھان وجے گوئل سے کہا کہ سرکار بناکر بھاجپا کو جنتا کے وعدے پورے کرنے چاہئیں اور وہ اقلیتی سرکار میں بہتر انتظامیہ دے سکتے ہیں۔ جب اکثریت ثابت کرنے کی بات آئے گی تو ڈاکٹر ہرش وردھن یہ ایوان میں ثابت کردیں گے ۔دہلی کے شہریوں کو مہنگائی سے تھوڑی راحت دی جاسکتی تھی لیکن دوسری پارٹیوں کے ممبران نے ان کا ساتھ نہیں دیا اس لئے وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہیں۔ یہ تیسرا موقعہ ہے جب ڈاکٹر ہرش وردھن کے ہاتھ سے دہلی کے وزیر اعلی کی کرسی پھسلی ہے۔ اس سے پہلے بھی دو بار انہیں وزیر اعلی بننے کا موقعہ ملنے والا تھا لیکن آخری وقت میں پانسہ پلٹ گیا۔ پہلی بار ڈاکٹر ہرش وردھن کا مکھیہ منتری بننے کا موقعہ اس وقت آیا جب سال 1993 سے98 تک چلی بھاجپا سرکار کے حالات بگڑنے لگے تھے اس وقت صاحب سنگھ ورما کو کرسی گنوانی پڑی تھی۔ اس وقت طے ہوا تھا ڈاکٹر ہرش وردھن کو وزیر اعلی بنایا جائے گا لیکن آخری وقت پر پروفیسر وجے کمار ملہوترہ کو دہلی کے وزیر اعلی کا امیدوار اعلان کردیا گیا۔ اس وقت بھی پارٹی کی جیت کے پورے آثار تھے لیکن نتیجہ الٹا ہوا۔ دوسرا موقعہ 2008 ء میں آیا ۔ تب بھی ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ سے کرسی کھسک گئی۔ سیاست کا آخری پڑاؤ اقتدار ہوتا ہے اس لئے تو آپ سیاست میں آتے ہو بھلے ہی آپ کی سرکار گر جاتی ہے لیکن آپ کو کوشش تو کرنی چاہئے تھے۔ تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ کانگریس پارٹی چھ مہینے کے اندر دہلی میں پھر سے اسمبلی چناؤ نہیں کروانا چاہے گی۔ چناؤ میں زبردست ہار کے غم سے کانگریس ابھی نکل نہیں پائی ہے اور دوبارہ چناؤ کے اندیشے نے پارٹی کے لئے لیڈر شپ کا بحران کھڑا کردیا ہے۔ کانگریس کسی بھی قیمت پر چناؤ کے لئے عام آدمی پارٹی کو بغیر شرط کے حمایت دینے کی پہل بھی کررہی ہے۔ 
دراصل نگراں وزیر اعلی شیلا دیکشت سمیت پارٹی کے تمام سرکردہ لیڈروں کے چناؤ ہارنے کے سبب کانگریس پردیش یونٹ میں لیڈر شپ کا بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ ذرائع کی مانیں تو شیلا جی کی لیڈر شپ میں پارٹی دوبارہ چناؤ میدان میں نہیں اترنا چاہتی۔ ساتھ ہی چار ریاستوں میں پردیش پردھانوں کو بدلنے کے پارٹی ہائی کمان کے فیصلے کو عمل میں لانے کے لئے دہلی راہ کا روڑا بن رہی ہے۔ کانگریس اعلی کمان موجودہ پردھان جے پی اگروال کی جگہ ایسا لیڈر بنانا چاہتی ہے جس کی لیڈرشپ میں چناؤ لڑا جاسکے۔ موجودہ حالات میں اگر دہلی میں مستقبل قریب میں اسمبلی چناؤ ہوتے ہیں تو کانگریس کو اتنی سیٹیں بھی نہ ملیں۔ رہی بات بھاجپا کی تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے دوبارہ چناؤ میں اسے واضح اکثریت مل جائے؟ اگر چھ مہینے بعد معلق اسمبلی آئی تو؟ دہلی کی گدی تک نریندر مودی کو پہنچانے کی خاطر بھاجپا لیڈر شپ نے ڈاکٹر ہرش وردھن اور پارٹی کی دہلی یونٹ کو داؤ پر لگادیا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ صحیح ثابت ہوں اور یہ غلط ہے سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس غیر یقینی سیاسی حالات کے چلتے دہلی کی جنتا مہنگائی کی مار سے پس رہی ہے اور مہنگائی اور بڑھے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!