آخر کب ملے گا نربھیہ کو انصاف؟

16 دسمبر 2012ء کی وہ سردی کی رات سڑک کنارے بغیر کپڑوں کے پڑے پیرا میڈیکل کی طالبہ و اس کا دوست وہ سین آنکھوں کے سامنے ابھی بھی لوگوں کے دلوں میں تازہ ہوگا۔ شاید ہو کبھی اسے بھول پائیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ کل ہی کو تو بات ہے۔ نربھیہ ٹریجڈی کو ایک سال ہوگیا ہے لیکن اس سال میں کیا بدلا؟ بیشک کئی سیکٹروں میں جیسے بہتر پولیسنگ عورتوں کی حفاظت کے لئے اٹھائے گئے اقدام، قانون وغیرہ وغیرہ میں ضرور تبدیلی آئی ہے لیکن درندگی میں کمی نہیں آئی۔ دیش کو ہلا دینے والی وسنت وہار گینگ ریپ کی واردات اور اس کے بعد اٹھائے گئے قدموں کے باوجود ہ دہلی والے نہیں سدھر پائے ہیں۔ دہلی میں اس کے بعد بہت سے بدفعلی کے واقعات ہوئے ہیں جن کی تعداد پچھلے ریکارڈ توڑ گئی ہے۔ یہ جان کار حیرانی ہوگی کہ نربھیہ معاملے کے بعد دہلی میں بدفعلی کے واقعات دوگنا ہوئے ہیں جبکہ چھیڑ خانی کے معاملوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ روزانہ تین چار ایسے واقعات، پانچ سات چھیڑ خانی کے کیس درج ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اہم بات یہ بھی ہے کہ پہلے جہاں عورتیں لڑکیاں اپنے ساتھ ہوئی ذیادتی کی شکایت سے کترایا کرتی تھیں اور بچتی تھیں وہیں اب وہ اپنے ساتھ ہوئے واقعات کے بارے میں بتانے لگی ہیں۔ یہ نربھیہ معاملے کا ہی اثر مانا جاسکتا ہے کہ راجدھانی کے ہر تھانے میں لیڈیز ڈیکس نے کام کرنا شروع کردیا ہے جبکہ شراب خانوں، سنیما ہال، مال و بس اسٹاپ سے نکلنے والے لورس جوڑوں کو مانگ کے مطابق اب پی سی آر ان کے گھر تک چھوڑتی ہے۔ وہ بدنصیب جینا چاہتی تھی، ہسپتال میں علاج کے دوران گذرے 13 دن میں اس نے اس کا ثبوت بھی دیا لیکن دردناک حادثے نے اسے اتنے درد دئے کے اسے بچانا مشکل ہوگیا تھا۔ سنگاپور جانے سے پہلے اسنے محض تین بار اپنی بات لکھ کر سمجھانے کی کوشش کی۔ تینوں بار اس نے یہ ہی سوال کیا میرے پر حملہ کرنے والے قصورواروں کو سزا ملی یا نہیں؟ لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اس واقعہ کو ایک سال گزرنے کے بعد بھی قصورواروں کے مقدمے عدالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہائی کورٹ نے بھلے ہی سماعت روزانہ کرنے کا فیصلہ لیا ہو لیکن بچاؤ فریق کے رویئے کے چلتے سماعت لمبی کھنچتی جارہی ہے۔ ملزمان کے وکیل کبھی دستاویز کے ہندی ترجمے کو لیکر معاملہ لٹکا رہے ہیں تو کوئی دوسرا بہانا بنا کر عدالت سے غیر حاضر ہوجاتے ہیں۔ 23 ستمبر سے ہائی کورٹ کی سماعت شروع ہوئی لیکن مقدمہ درج ہونے کے بعد کارروائی نومبر سے شروع ہوپائی تھی۔ سرکاری وکیل نے محض8 دنوں میں جریح پوری کرلی لیکن بچاؤ فریق32 دنوں میں جریح شروع نہیں کرپایا تھا۔ ہائی کورٹ کی جلد سماعت کے فیصلے سے لگ رہا تھا کہ نومبر تک معاملے کا نپٹارہ ہوجائے گا اور 16 دسمبر سے پہلے نربھیہ کے قصورواروں کو سزا مل جائے گی مگر بچاؤ فریق نے ایسا قانونی داؤ چلا کہ اب تک مقدمے میں جریح نہیں ہوپائی۔ اس کے بعد ابھی سپریم کورٹ باقی ہے پتہ نہیں قصورواروں کو کب سزا ملے گی؟ نربھیہ کی قربانی بیکار نہیں جائے گی سسٹم میں بہتری ہورہی ہے لیکن ابھی کافی خامیاں ہیں ان پر سبھی کو توجہ دینی ہوگی۔ دہلی ریپ کیپیٹل آف انڈیا بنتی جارہی ہے۔ اکیلے پولیس قصوروار نہیں سماج بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے۔ ضرورت لوگوں کی ذہنیت بدلنے کی ہے۔ عورتوں کے تئیں عزت بحال کرنے کی ہے، کچھ کا خیال ہے ایک بار نربھیہ کانڈ کے قصورواروں کو پھانسی پر لٹکادیا جائے تو شاید حالت میں بہتری آئے لیکن سوال یہ ہے کب لٹکیں گے یہ پھانسی پر؟ اور کب ملے گا نربھیہ کو انصاف؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!