ہم جنسی جرم یا حق؟

جنسی رشتوں کو جائز ٹھہرانے والے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے پلٹ کر اس مسئلے پر وسیع بحث اور توجہ مرکوز کردی ہے۔ جہاں ایک طرف ترقی پسند کہے جانے والے طبقے نے اسے خوش آئین قراردیا ہے وہیں مذہبی تنظیموں وا طفال حق کے لئے کام کررہیں انجمنوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صاف کہا ہے کہ جب تک آئی پی سی کی دفعہ370 وجود میں ہے جنسی استحصال و رشتوں کو قانونی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ اگر پارلیمنٹ چاہے تو اس پر بحث کرکے مناسب فیصلے لے سکتی ہے۔ دیش کی سپریم عدالت نے دہلی ہائی کورٹ کے سال2009 کے فیصلے کو ٹال دیا۔ 1861 کے اس قانون کو نہ صرف جائز قراردیا بلکہ ہندوستانی معاشرے اور مذہبی جذبات کا بھی حوالہ دیا ہے۔ اصل میں جنسی رشتوں کو جائز قراردینے والی دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے پر بہت سی مذہبی اور کلچر تنظیموں نے چنوتی دی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے یوگ گورو بابا رام دیو نے کہا کہ میں اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ہم جنسی انسانیت حق کی خلاف ورزی ہے اور غیر فطری ہے۔ یہ ایک دماغی شرارت کا حصہ ہے جس کا علاج ہے۔ بابا رام دیو نے ہم جنسی کو جینیٹک کہی جانے والی دلیل کو غلط بتایا۔ انہوں نے کہا اگر ہمارے ماں باپ ہم جنس ہوتے تو ہماری پیدائش نہیں ہوتی۔ یہ غیر قدرتی ہے اور ایک بری عادت ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا سہارنپور ،دیوبند کی اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی عبدالقاسم نعمانی نے فیصلے کاخیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ انسانیت اور معاشرے کے تقاضوں کے مطابق ہے جس پر سختی سے عمل کیا جانا چاہئے۔ مذہب اسلام میں ہم جنسی جرم کی بہت بڑ ی سزا ہے اور دوسری طرف ہم جنسوں کی لڑائی لڑنے والی ریتو سین نے کورٹ کے فیصلے پر تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا فیصلے سے ہمارا حق ختم ہوگیا ہے جبکہ آئین میں ہم سبھی کو اپنے طریقے سے جینے کا حق ہے۔ہیجڑہ تنظیم استتو کی چیف لکشمی پانڈے نے کہا آج ہمیں ہندوستانی ہونے پر دکھ ہے کیونکہ ہمیں وہ حق نہیں ہے جو عام ہندوستانی شہری کو حاصل ہے۔ فیصلے سے ہیجڑوں اور ہم جنس افراد پر ظلم بڑھے گا۔ متر ٹرسٹ سے جڑی ایک ہم جنس عورت روپانی نے کہا کہ 2009 کے کورٹ کے فیصلے کے بعد لوگوں کی ہمارے بارے میں رائے بدلی تھی۔ پولیس بھی کم پریشان کرتی تھی لیکن اب پولیس ہمیں زیادہ پریشان کرے گی۔اگر ہم نمبروں کی بات کریں تو بھارت میں تقریباً 25 لاکھ ہم جنس ہیں جن میں 1.7 لاکھ ہم جنس HIV سے متاثر ہیں۔ کچھ دیشوں میں 1 سے14 سال تک کی سزا ہے اور کچھ دیشوں میں ہم جنسی کرنے والوں کو موت کی سزا تک دی جاتی ہے۔ تقریباً77ملکوں میں یہ جرم مانا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے آنے کے بعد جس طرح سے کانگریس صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہل گاندھی نے ان لوگوں کی آزادی سے جڑا معاملہ بتایا ہے اس کے بعد اس اشو پر کانگریس پارٹی اور سرکار میں بحث تیز ہوگئی ہے کہ ہم جنسوں کو راحت پہنچانے کے لئے شاید سرکار ایک آرڈیننس لانے کی تیاری شروع کررہی ہے۔ غور طلب ہے راہل گاندھی نے کہا کہ ان کی نجی رائے میں ہائی کورٹ کا فیصلہ ٹھیک تھا۔ اس کے بعد وزیر قانون کپل سبل نے اس میں راحت کا اشارہ دیا اور وزارت قانون کے ذرائع کاکہناہے سرکار جلد ہی اس بارے میں آرڈیننس لا سکتی ہے۔ ادھر بھاجپا نے اپنا موقف صاف کرنے سے بچتے ہوئے گیند سرکار کے پالے میں ڈال دی اور کہا اگر سرکار اس بارے میں تجویز لانا چاہتی ہے تو وہ اس معاملے پر آل پارٹی میٹنگ بلائے۔ سشما سوراج نے کہا سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ اس معاملے کو طے کر سکتی ہے۔ ہم جنسی کی وکالت کرنے والے کہتے ہیں کہ دو بالغ اگر تنہائی میں آپس میں تعلق بناتے ہیں تو موجودہ ترقی پسند دور میں اس میں قانونی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے بھی ہمارے آئین کا یہ بنیادی حق ہے۔ آپ کی آزادی حد وہاں تک ہے جہاں سے دوسروں کی آزادی شروع ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر اگر کچھ لوگ کورٹ کے فیصلے کی تلخ نکتہ چینی کررہے ہیں تو ان کی اظہار آزادی کا بھی احترام کیا جانا چاہئے لیکن اس بات کابھی خیال رکھا جانا چاہئے کہ نہ توبھارتیہ سماج اور نہ ہی ہمارے مذہب ایسے رشتوں کو جائز مانتے ہیں۔ فرض کیجئے اگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ٹھیک طریقے سے عمل ہوتا تب بھی اس کی اتنی ہی نکتہ چینی ہوتی۔ اب مناسب یہ ہی ہوگا کہ سپریم کورٹ نے 370 کو ہٹانے یا اس میں ضروری ردوبدل کرنے کی ذمہ داری پارلیمنٹ پر چھوڑی ہے تو اسے اپنا رول نبھانا چاہئے ۔ ساتھ ہی یہ بھی غور کرنا چاہئے آخر کیا وجہ ہے کہ جن اشوز پر پارلیمنٹ میں زبردست غور خوض ہونا چاہئے وہ عدالتی کارروائی کا اشو بنے ہی کیوں؟ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!