ہندوؤں کی آستھا کی علامت رام سیتو کو توڑنے پر تلی یہ حکومت

لاکھوں کروڑوں ہندوستانیوں کے جذبات اور اختلاف کو درکنار کرتے ہوئے راون ونشی ڈی ایم کے پارٹی اوراس ہندو مخالف یوپی اے سرکار نے ایک بار پھر متنازعہ سیتو سمندرم پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کی خواہش ظاہرکی ہے۔ بتاتے چلیں کے یہ حکومت وہ سیتو توڑنا چاہتی ہے جو بھگوان رام کی سینا کو لنکا تک پہنچانے کیلئے ہنومان جی نے بنایا تھا۔ مرکزی سرکار نے سپریم کورٹ سے یہ کہہ کر کے 25 ہزار کروڑ روپے کے لاگت والے سیتو سمندرم پروجیکٹ کے سلسلے میں تاملناڈو حکومت کے اعتراضات کو درکنار کردیا ہے اور اس کے پروجیکٹ پر آگے بڑھانے کا ارادہ ہے کیونکہ آر کے پچوری کی سربراہی والی ماہرین کمیٹی نے دلیلوں اور آئینی جواز کے ساتھ رپورٹ نہیں آئی ہے۔ تاملناڈو سرکار کا سپریم کورٹ میں موقف تھا کے متنازعہ پروجیکٹ کو منسوخ کردیا جائے اور مرکز کو کمیٹی کی رپورٹ قبول کرلینا چاہئے جس میں پایا ہے کہ پورا پروجیکٹ اقتصادی اور حالات کے دونوں مورچوں کے حساب سے ٹھیک نہیں ہے۔ پروجیکٹ سے سمندری ماحولیاتی اثرات اور مرکز کو رام سیتو کو قومی یاد گار اعلان کرنے کا حکم دئے جانے کی ریاستی حکومت کی دلیل کے جواب میں مرکز نے کہا اس سلسلے میں ماحولیاتی اجازت سبھی دلائل اور حالات پرکھنے کے بعد ہی دی گئی تھی اور پروجیکٹ عوامی اور اقتصادی معاملے میں فائدے مند ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں پیسے کی بھوکی اس یوپی اے سرکار کے سامنے کاروباری فائدے کے لئے ہندوؤں کی عقیدت کی علامت اور ماحولیات کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ فوجی طاقت کے طور پر بھی انتہائی اہمیت کے حامل رام سیتو کو توڑنے کے لئے بضد ہے۔ ترقی اور کاروبار کے سینکڑوں،لاکھوں کروڑوں راستے ہیں لیکن اس سرکار کو نہ تو ہندوؤں کے جذبات اور روایت کی پرواہ ہے اور نہ ہی اس بات کا احساس ہے کہ جس پل کو سونامی تک نہیں توڑ سکی اسے یہ بھٹکے انسان کیسے توڑیں گے۔ ہزاروں سال سے یہ سیتو ہندوؤں کی عقیدت اور بھروسے اور پوجا کی علامت رہا ہے۔ ساری دنیا میں جہاں بھی ہندوؤں کی سب شری رام اور رام بھکت ہنومان کی پوجا ارچنا کرتے ہیں لیکن بھوکی ننگی ہندومخالف سرکار کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ڈی ایم کے پارٹی کا انہیں مرکز میں حمایت چاہئے اور موٹے پیسوں کا کھیل ہے اس لئے اسے توڑنے پر آمادہ ہے۔جے للتا سرکار نے رام سیتو کو قومی وراثت اعلان کرنے کی مانگ کی ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے رام سیتو توڑنے کی جگہ مرکزی سرکار کو رام سیتو کو مذہبی ٹورازم کی شکل میں پیش کرنے کیلئے اسکیم بنانی چاہئے۔ سیتو سمندرم پروجیکٹ سے کئی لاکھ گنا آمدنی رام سیتو کو دھارمک ٹورازم کی شکل میں پیش کرنے سے ہوگی۔ اگر ہم سبھی آستھا اور وقار کی علامت کو ترقی اور کاروباری نقطہ نظر سے دیکھیں گے تو دیش کے اندر آستھا رکھنے یافخر کرنے کے لئے کیا بچے گا؟ کل کوئی سرکار رام سیتو کی طرح مہاتما گاندھی کے سمادھی استھل راج گھاٹ، سنسد بھون، انڈیا گیٹ، لال قلعہ، جامعہ مسجد، ہمالیہ وغیرہ کو توڑ کر طرح طرح کے کاروباری ادارے یا ترقیاتی اسکیموں کی بات بھی کر سکتی ہے۔ ہمیں ایک بار پھر سرکار سے اپیل کرنی چاہئے کے وہ کروڑوں ہندوؤں کے جذبات اور بھروسے کا احترام کرے اور اس پروجیکٹ کو ہمیشہ کے لئے چھوڑدے۔ سیاسی نقطہ نظر سے بھی یہ اشو یوپی اے سرکار کے لئے نقصاندہ ہوسکتا ہے۔ مرکزی سرکار اور کانگریس کی یہ گھناؤنی پالیسی بھاجپا کی جڑوں میں آکسیجن کا کام کرے گی؟ جنوبی ہندوستان میں بھاجپا اور نریندر مودی کو نئی زمین تیار کرنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ شری مودی کو اس اشو کو اٹھانا ہوگا۔ اس سے انہیں مضبوطی ملے گی۔ بھگوان کا آشیرواد ملے گا اور جنوبی ہندوستان میں پاؤں جمانے کا موقعہ بھی۔ کروڑوں ہندوؤں کی حمایت ملے گی۔ بلا تاخیر اس اشو کو اٹھانا ہوگا اور اس ہندو مخالف سرکار کے ارادوں کو ناکام کرنا ہوگا۔ جے شری رام ۔جے شری ہنومان۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟