مظفر نگر فسادات کی اصلیت کو ’آج تک‘ نے کیا بے نقاب!


ہم نے جیسا کے اس کالم میں لکھا تھا اور دور درشن ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا بھی تھا کہ اترپردیش کی اکھلیش یادو حکومت نے مظفر نگر فسادات کو بھڑکایا اور جان بوجھ کر بروقت کارروائی نہیں کی۔ وہ آہستہ آہستہ ثابت ہونے لگا ہے۔ ان فسادات کو لیکر اکھلیش حکومت کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایک طرف عدالتی ڈنڈا دوسری طرف انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ اور رہی سہی کثر پرائیویٹ نیوز چینل ’آج تک‘ کے اسٹنگ آپریشن نے پوری کردی۔ منگل کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے سپا حکومت کے دوران ہوئے سبھی فسادات پر سرکار سے جواب طلب کیا ہے اور دنگا متاثرین کو راحت کو لیکر سپریم کورٹ پہلے سے ہی سماعت کررہا ہے۔ ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے جسٹس امتیاز مرتضیٰ اور جسٹس اروند کمار ترپاٹھی کی بنچ نے سماجی کارکن نوتن ٹھاکر کی عرضی پر سپا حکومت میں ہوئے سبھی فسادات پر دو ہفتے میں جواب مانگا ہے۔ ریاست کے اپر سالیسیٹر جنرل کو سپریم کورٹ اور الہ آباد بنچ نے دنگوں کے سلسلے میں دائر مقدمات کی پوزیشن سے بھی باآور کرانے کوکہا گیا ہے۔ عرضی میں موجودہ حکومت اور اس کے حکام پر ایک فرقے کے تئیں جھکاؤ اور ملزمان کے خلاف کارروائی میں لاپروائی برتنے کا الزام ہے۔ جمعہ کو سپریم کورٹ مغربی اترپردیش کے فسادات کی بابت عرضی پر سماعت کرے گا۔ اب بات کرتے ہیں انٹیلی جنس بیورو یعنی آئی بی رپورٹ کی۔ اس نے مظفر نگر فسادات پر ایک رپورٹ دی ہے جس میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مغربی اترپردیش میں جو فرقہ وارانہ دنگے ہوئے اس کے بارے میں خفیہ نے ماہ اگست میں اترپردیش سرکار کو آگاہ کیا تھا اس کے کچھ دن بعد وزارت داخلہ نے بھی بہار، مدھیہ پردیش کے ساتھ اترپردیش کو بھی ایڈوائزری جاری کرکے کہا تھا کہ گنیش چتوتھی کے دوران فرقہ وارانہ فسادات کا خطرہ ہے۔ دنگوں پر آئی بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مظفر نگر کا دنگا رک سکتا تھا لیکن سرکار نے ہی پولیس انتظامیہ کے ہاتھ باندھ دئے تھے۔ الرٹ کے باوجود متعلقہ علاقوں میں نہ تو فورس بڑھائی گئی اور نہ ہی کوئی ایکشن پلان بنا۔ ذرائع کے مطابق کوال کے تہرے قتل عام کے بعد اگر منصفانہ کارروائی ہوتی تو جھگڑا نہ بڑھتا لیکن سرکار نے نمبر دو کی حیثیت والے ایک وزیر نے پولیس انتظامیہ کو کارروائی نہ کرنے کے احکامات دئے تھے۔ آئی بی نے مغربی اترپردیش میں ہوئے فساد کو طے شدہ بتایا ہے جو زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ اس کا اثر پورے دیش میں پڑ سکتا ہے۔ مظفر نگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں اگرنظر ڈالیں تو یہ ہوبہو ایسا نظر آتا ہے یعنی اس کی باقاعدہ کہانی لکھی گئی ہو۔ جس چھوٹے واقعے کے بعد یہ بڑا دنگا ہوا ویسے واقعات تو مغربی اترپردیش میں سال میں دو درجن سے زیادہ رونما ہوتے ہیں۔ وہاں اس سے پہلے کسی بھی ایسے چھوٹے واقعہ نے فرقہ وارانہ تشدد کی شکل نہیں اختیار کی۔ اسی وجہ سے سبھی کواور آئی بی کو شبہ ہے کہ یہ تشدد منظم تھا۔ بڑی پنچایتیں بھی شک کے دائرے میں ہیں کیونکہ کشیدگی کے ماحول کے بیچ بھاری بھیڑ اور اس میں اشتعال انگیز تقریریں ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی چار سال پرانی سی ڈی کو پہلے سوشل میڈیا پر ڈالا گیا اور اس سے افواہ گرم ہوگئی جس سے یہ لگتا ہے کہ یہ فساد منظم تھا۔ جب اسے سوشل میڈیا پر رکوایا گیا تب یہ بڑی تعداد میں لوگوں کے بیچ میں بٹنے لگی۔ اس سی ڈی کولیکر پولیس چیف کی اپیل ابھی تک اخباروں میں چھپ رہی ہے۔ یہ سی ڈی پاکستان کی ہے اور برسوں پرانی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس بھی محسوس کررہی ہے کہ اس سی ڈی نیزہر پھیلانے میں بڑا رول نبھایا ہے۔ 
اس سی ڈی کا بڑے پیمانے پر آنا اور کئی ضلعوں میں بڑی تعداد میں بانٹنا یہ ایک منظم سازش نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ 80 ہزار لوگوں کی پنچایت کے بعد گھرواپسی کے دوران لوگوں پر گھات لگاکر کئی مقامات پر حملے ہونا کیا اس پورے واقعے کو منظم نہیں مانا جاسکتا؟ موقعے سے اے کے 47- رائفل خالی کھوکے ملنا بھی یہ ہی اشارہ کرتے ہیں کہ سازشی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اور دنگے کی جڑ رہے کوال کانڈ کے بعد سپا لیڈروں کے سیاسی دباؤ نے اس طرح پولیس انتظامیہ کے ہاتھ باندھ دئے اس کی تصدیق آج تک کے اسٹنگ آپریشن نے اجاگر کردی اور ثابت کردیا۔
منگلوار اور بدھوار کو آج تک ٹی وی چینل نے یہ آپریشن ٹیلی کاسٹ کیا تو پولیس انتظامیہ اور سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ خفیہ خیمے میں سی ای او جانسٹھ جگت رام جوشی اور ایس ڈی ایم آر سی ترپاٹھی کے علاوہ ایس پی کرائم کلپنا سکسینہ ، ایس او پھوگانا اور آر ایس گوڑ ،ایس او شاہ پور ستیہ پرکاش سنگھ ،ایس ایچ او بھوپا،رام پال سنگھ۔ تھانیدار میرا پور اے کے گوتم ہٹائے گئے۔ انسپکٹر برہانہ رشی پال سنگھ بھی بولتے نظر آرہے ہیں۔ وہ صاف کہتے دکھائی دے رہے ہیں کوال میں شاہنواز اور ملک پور میں سچن اور گورو کے قتل کے بعد تلاشی کارروائی چلا کر 7 مشتبہ ملزمان کوحراست میں لیا گیا تھا۔ تبھی ایک بڑے قد والے سپا لیڈر نے فون کرکے ساتوں ملزمان کو چھڑوادیا۔ ایف آئی آر بھی فرضی درج کرائی گئی۔ ایس ایچ او میرا پور اسٹنگ آپریشن میں بول رہے ہیں کے سپا نیتا نے ضلع مجسٹریٹ ایس ایس پی کو ہٹوایا جبکہ دونوں افسر اچھا کام کررہے تھے۔ چینل کے سنسنی خیز انکشاف کے بعد اترپردیش سرکار اور خاص طور سے ریاستی وزیر اعظم خاں نے اسٹنگ آپریشن کو ہی فرضی بتادیا۔ اگر یہ سی ڈی فرضی ہے تو اکھلیش ۔اعظم خاں بتائیں گے کے انہوں نے ان پولیس والوں پر کارروائی کیوں نہیں کی جو رپورٹ میں ہیں؟ منگلوار کو کسی کا تبادلہ کردیا گیا تو کسی کو لائن حاضر کرنے کے فرمان جاری کردئے گئے۔ 8 ستمبر کو پھوگانا علاقے میں سب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ تھانے کے سیکنڈ افسر آر ایس مگوڑ نے بتایا کم سے کم 16 لوگوں کی موت ہوئی۔ موقعہ پر پولیس فورس بہت کم تھی۔ ان کے پاس اسلحہ بھی نہیں ہے اور جو ہے وہ چلتے ہی نہیں۔جو چل گیا تو مانو اوپر والے کی کرپا ہے۔ اگر اوپر والا غصہ ہوجائے تو وہ بھی نہیں چلے گا۔ اسٹنگ آپریشن سے یہ ثابت ہوگیا کے سپا سرکار نے دنگا بڑھانے میں خاص رول نبھایا۔ دنگا متاثرہ علاقے کے ایک پولیس افسر نے اسٹنگ آپریشن میں بتایا کے لکھنؤسے سپا کے بڑے نیتا اعظم ۔۔۔ کا فون آیا، اس کے بعد سبھی ملزمان کو چھوڑنا پڑا۔ نیتا جی نے کہا ہے جو ہورہا ہے وہ ہونے دیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!