کیا یہ سنکٹ جان بوجھ کر بنایا گیا؟

دیش کی سب سے بڑی ائر لائن انڈیگو میں پچھلے کچھ دنوں سے بھاری بدنظمی کا سامان کررہی ہے ۔ایک طرف اڑانوں کا وسیع پیمانہ پر منسوخ ہونا تو دوسری طر ف آسمان چھوتے مسافر کرائے نے مسافروں کی ناک میں دم کر دیا ہے ۔ایئر لائن نے ذمہ داری نئے ایف ڈی ٹی ایل ( فلائٹ ڈیوٹی ٹائم لمیٹیشن ) قواعد پر ڈالی ہے ۔لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیگو کے پاس تیاری کے لئے درکار وقت تھا۔اس کی وجہ یہ الزام بھی سنگین ہو گیا ہے کہ ایئر لائن نے قواعد میں ڈھیل پانے کے لئے سرکار پر دباؤ بنانے کا راستہ چنا ۔ایویشن ماہرین کے مطابق اس بحران کی جڑ جنوری 2024 میں دائر اس عرضی میں ہے جس میں پائلٹ یونین نے دہلی ہائی کورٹ کے سامنے تھکان اور لمبی ڈیوٹی کو سنگین سیکورٹی خطرہ بتایا تھا ۔کورٹ کی ہدایت کے بعد ڈی جی سی اے نے ایف ڈی ٹی ایل قواعد میں تبدیلیاں کیں اور انہیں ایک جولائی 2025 سے لاگو کر دیا ۔ان قواعد میں پائلٹوں کو ہفتہ وار چھتیس گھنٹے کے بجائے 48 گھنٹے کا ضروری آرام دیا ۔اور کسی بھی چٹھی کو ویکلی ریسٹ ماننے سے روک لگا دی ۔نومبر 2025 میں اس کا دوسرا مرحلہ لاگو ہوا ، جس میںلگاتار نائٹ شفٹ پر بڑی پابندی لگا دی گئی۔انہیں تبدیلیوں کا اثر انڈیگو پر سب سے زیادہ پڑا ۔12 دسمبر کو دہلی ،ممبئی اور بنگلورو جیسے بڑے ہوائی اڈوں پر اڑانیں غیر ریگولر ہونا شروع ہوئیں۔اور آن ٹائم پرفارمنس گر کر 35 فیصد پر آگئی ۔3 دسمبر کو یہ حالت اور بگڑی اور آپریشن پرفارمنس 19.7 فیصد تک گر گئی ۔4 دسمبر کو حالات تقریباً ٹھپ ہو گئے ۔قریب 800 اڑانیں منسوخ کرنی پڑیں اور او ٹی پی صرف 8.5فیصد پر رہ گیا ۔کئی روٹس پر ٹکٹ کا کرایہ 10 ہزار سے بڑھ کر 40 ہزار 50 ہزار دیکھا گیا ۔کیا یہ مسئلہ منوپولی کی وجہ سے ہوا؟ سال 2006 کے اگست میں دہلی ،ممبئی کے بیچ اڑان سے شروع ہوئی انڈیگو کی کہانی اور اس موڑ پر آجائے گی تب راہل بھاٹیہ اور راکیش گنگوال نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا جنہوں نے 2005 میں انڈیگو کو مالک انٹر گلوبل انٹر پرائز کی بنیاد رکھی تھی ۔آج بھارت کے جہاز رانی مارکیٹ میں انڈیگو سب سے بڑی کھلاڑی ہے اور اس کے پاس قریب 64 فیصدی حصہ داری ہے اب یہی بڑھا قد اس کی ہزاروں اڑانیں کینسل ہونے اور مسافروں کو ہوئی بے شمار پریشانیون کے چلتے سوالوں کے گھیرے میں ہے ۔پارلیمنٹ میں انڈیگو کی قیمت منوپلی یعنی ایک طرفہ سوال اٹھے ۔راہل گاندھی نے کہا کہ اس بحران کے لئے مرکزکی منوپلی ماڈل ذمہ دارہے ۔جہاز رانی سیکٹر کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ ہوا یہ جان بوجھ کرکیا گیا یا بنایاگیا ۔اس بحران سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک منوپلی کمپنی جب چاہے دیش کو اپنی انگلیوں پر نچا سکتی ہے ۔سرکار نے ایئر انڈیا کو پیچھے دھکیل کر انڈیگو کو ایک طرفہ حق دے دیا جس سے وہ جہازی سیکٹر میں من مرضی کر سکے جو کچھ ہوا ہے اس میں یہ ساکھ بنی کہ کوئی ایک بڑی کمپنی بھارت میں جہازرانی قواعد میں تبدیلی کروا سکتی ہے لہذا اس واقعہ سے کسی ایک کمپنی نہیں بلکہ دیش کے پورے جہازرانی سیکٹر کی ساکھ پر آنچ آئی ہے۔ایویشن سیفٹی فرم کونسلنگ کے سی ای او ماک ڈی مارٹن نے کہا کہ ایک طرف اختیار بڑی وجہ ہے ۔جس طرح سے یہ معاملہ ہوا ہے اس سے دنیا بھر میں یہ پیغام گیا ہے کہ بھارت میں ایویشن ریگولیشن میں دم نہیں ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘