پاک - سعودی میں فوجی سمجھوتہ !
پاکستان اور سعودی عرب میں ایک اور اہم اور کچھ معنوں میں کچھ اہم ترین سمجھوتہ ہواہے ۔پاکستان ایک فوجی نیوکلیائی طاقت ہے بیشک وہ ایک جدوجہد کرتی معیشت ہے ۔وہیں سعودی عرب اقتصادی طور سے طاقتور ہے ۔لیکن فوجی اعتبار سے کمزور ہے ۔سعودی عرب اور پاکستان دونوں ہی سنی اکثریتی دیش ہیں ۔او ردونوں کے درمیان مضبوط رشتے رہے ہیں ۔سعودی عرب نے کئی مرتبہ اقتصادی بحران کے وقت پاکستان کی مدد کی ہے اور پاکستان بھی بدلے میں سعودی عرب کو سیکورٹی تعاون کا بھروسہ دیتا رہا ہے۔اب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حکمت عملی باہمی دفاعی معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق کسی ایک کے تئیں دکھائی گئی جارحیت اور دوسرے کے خلاف مانی جائے گی ۔کچھ ایسا ہی معاہدہ جیسا نیٹو کے ممبر ملکوں کے درمیان ہے ۔یہ ڈیفنس معاہدہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر ایک دیش پر حملہ ہوا ہے تو دوسرا دیش اسے خود پر بھی حملہ مانے گا ۔یعنی اب اگر پاکستان یا سعودی عرب پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں ملکوں پر حملہ ماناجائے گا ۔دونوں ملکوں کی بری ہوائی اور بحری افواج اب اور زیادہ تعاون کریں گی اور خفیہ معلومات شیئر کریں گی۔چونکہ پاکستان ایک نیوکلیائی کفیل ملک ہے ایسے میں اسے خلیج میں سعودی عرب کے لئے تعاون کا بھروسہ بھی مانا جاسکتا ہے ۔حال ہی میں اسرائیل نے قطر کی راجدھانی دوحہ میں حماس کے لیڈروں کے اڈوں پر حملے کئے تھے ۔اس سے عرب دنیا میں اتھل پتھل اور بے چینی بڑھ گئی ہے ۔پاکستان کے وزیردفاع خواجہ عاصف نے اس معاہدے کے بعد کہا ؛ کہ ہمارے بھائی چارے کے رشتے تاریخی موڑ پر ہیں ،ہم دشمنوں کے خلاف متحدہیں ۔پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے کہا کہ پاکستان سعودیہ سے ملے پیسے سے امریکی ہتھیار خرید پائے گا بھلے ہی یہ کہا جارہا ہو کہ یہ معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے لمبے تاریخی رشتوں کا نتیجہ ہے ۔لیکن بھارت کے لئے یہ پیش رفت تشویش بڑھانے والی ضرور ہے ۔سعودی عرب خلیج میں بھارت کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک ہے تجارت ،سرمایہ کاری ،اینرجی سیکورٹی تعاون سمیت کئی سیکٹروں میں دونوں کے درمیان پچھلی دو دہائیوں سے رشتے گہرے ہوئے ہیںخاص کر شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کے دورمیں نئی طرح کی گرم جوشی دیکھنے کو ملی ہے ۔پی ایم مودی اس سال اپریل میں ہی اپنے تیسرے سعودی دورہ پر گئے تھے جہاں دونون ملکوں کے درمیان کئی سیکٹروں میں تعاون پر رضامندی بنی تھی ۔یہ سمجھوتہ جتنا مغربی ایشیا کے لئے ہے اتنا ہی بھارت سمیت پورے ساو¿تھ ایشیا کے لئے بھی تشویش کاباعث ہے اور عوامی خدشات تو سمجھوتہ کے اس تقاضہ کو لے کر ہے کہ دونوں میں سے کسی بھی دیش پر حملہ دونوں پر حملہ ماناجائے گا ۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بھارت پاکستان کے درمیان جنگ جیسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو سعودی عرب اور پاکستان ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں گے ؟ چار مہینے پہلے ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک بڑی لڑائی ہوئی تھی ۔آپریشن سندھور کو لے کر بارڈر پر اب بھی کشیدگی بنی ہوئی ہے ۔ایسے میں یہ اندیشہ درکنار نہیں کیاجاسکتا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اس سمجھوتہ کی وجہ سے سعودی عرب بھی پارٹی بن جائے حالانکہ سمجھوتہ کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے ۔حال ہی میں اسرائیل نے قطر پر ایک ایئر اسٹرائک کر حماس لیڈروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی اسے لے کر مسلم ورلڈ کافی غصہ میں ہے ۔اس حملے کے بعد دوحہ میں اسلامی عرب ممالک کا اتحاد ایک ایمرجنسی چوٹی کانفرنس بلائی گئی تھی جہاں یہ بھی تذکرہ ہوا تھا کہ کیا نیٹو جیسا کوئی سیکورٹی اسکوائیڈ بنایاجاسکتا ہے ۔یہ سمجھوتہ اسی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے ۔دیکھا جائے تو بھارت اور سعودی عرب کے درمیان گہرے سماجی اور تہذیبی سمجھوتے ہیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سعودی عرب بھارت کا پانچواں سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے ۔خلیجی ملکوں میں لاکھوں ہندوستانی نوکریاں کرتے ہیں اس معاہدے کے بعد بھارت کی تشویش کا پیدا ہونا فطری ہے ۔ایسا سمجھوتہ روس نے نارتھ کوریا کے ساتھ کیا تھا ۔ہمارے روس سے اچھے تعلقات ہیں جبکہ نارتھ کوریا سے اتنے اچھے نہیں ہیں ۔کیوں کہ وہ چین کے قریب ہے ۔باوجود اس کے روس سے ہمارے رشتوں پر منفی اثر نہیں پڑا ۔ماہرین کا خیال ہے کہ ہمیں سعودی عرب سے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اس سے پاکستان کو جو فائدہ اور مضبوطی ملے گی اسے وہ بھارت کے خلاف استعمال کرسکتا ہے ۔اس ڈیفنس سمجھوتہ سے پورے خطہ میں غیر متوازن صورتحال کھڑی ہوسکتی ہے ۔بھارت نے کہا ہے کہ وہ اس کے اثر کو دیکھے گا سرکار کی اپنی تشویشات کو لے کر بھارت سرکار کو سعودی عرب سے کھل کر بات کرنی چاہیے ۔پاکستان کے اسلامی ناٹو جیسے نظریات کو شیئر کرنا چاہیے اور خلیجی ملکوں نے توجہ بھی نہ دی ہو لیکن مذکورہ معاہدہ بھارت سے ڈپلومیٹک چوکسی بنائے رکھتے ہوئے کثیر خارجہ پالیسی کو مضبوط کرنے کی مانگ تو کرتا ہی ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں