داغدار چنے عوامی نمائندے!

یہ اطلاع نہ صرف چونکاتی ہے بلکہ ہمیں سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے ۔کہ جن وزراءممبران پارلیمنٹ ،ممبران اسمبلی کو ہم اپنی قسمت بنانے کے لئے چنتے ہیں وہ اندر کھانے کتنے داغدار ہیں ان کے خلاف کتنے سنگین الزام عائد ہیں ۔جرائم کے معاملوں میں بھی قتل ، اغوا خواتین کے خلاف جرائم جیسے سنگین معاملے شامل ہیں ۔چناو¿ اختیار ادارہ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم (اے ڈی آر ) نے اپنی رپورٹ میں حیرت انگیز الزمات کی لمبی فہرست جاری کی ہے۔ابھی حال میں تین بل پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے تھے تاکہ سنگین جرائم معاملوں میں اگر کسی وزیراعظم ،وزیراعلیٰ یا وزیر کو تیس دن کی بھی جیل میں رہنا پڑے تو اسے از خود عہدے سے ہٹایا گیا مان لیا جائے ۔حالانکہ اپوزیشن نے اس کی جم کر مخالفت کی ہے اور اندیشہ جتایا گیا ہے کہ اگر یہ قانون بن گئے تو ان کا بیجا استعمال ہوگا ۔جس سے اپوزیشن پارٹیوں کو نشانہ بنایاجائے گا ۔فی الحال یہ قانون جے پی سی کو سونپا گیا ہے ۔اور اس کی رپورٹ آنے کے بعد ہی آگے کی کاروائی ہوگی ۔لیکن ہم اے ڈی آر کی رپورٹ کی طرف لوٹتے ہیں ۔اس کے مطابق دیش بھر کے 302 وزیر (تقریبا 47 فیصدی ) خود پر کرمنل کیس ہونے کی بات تسلیم کر چکے ہیں ۔ان میں 174 وزیر ایسے ہیں جن پر قتل ،اغوا اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم جیسے سنگین الزام ہیں۔وہیں مرکزی حکومت کے 72 وزراءمیں سے 29 یعنی (40 فیصدی ) نے مجرمانہ کیس ہونے کی بات مانی ہے ۔اے ڈی آر نے 27 ریاستوں تین مرکزی حکمراں ریاستوں اور مرکزی سرکار کے کل 643 وزراءکے حلف ناموں کا تجزیہ کیا ہے ۔یعنی یہ سب کیس نیتاو¿ں نے اپنے حلف ناموں میں بتائے ہیں ۔یہ سب خود اعتراف کیا گیا ہے ۔ا ے ڈی آر نے یہ بھی کہا کہ جس حلف ناموں کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی گئی ہے وہ 2020 سے 2025 کے درمیان چناو¿ میں داخل ہوئے تھے ۔ان سبھی معاملوں کی پوزیشن بدل بھی سکتی ہے ۔جن وزرائے اعلیٰ پر مجرمانہ کیس چل رہے ہیں اس فہرست میں سب سے اوپر تلنگانہ کے کانگریسی وزیراعلیٰ اندت ریڈی ہیں جن پر 89 کیس چل رہے ہیں ۔اگلا نمبر تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ اسٹالن کا آتا ہے ان پر 43 کیس چل رہے ہیں ۔آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ اور مودی سرکار کی بیساکھی بنے چندر بابو نائیڈو پر 19 کیس چل رہے ہیں ۔کرناٹک کے کانگریسی وزیراعلیٰ سدا رمیا پر 13 اور ہیمنت سورین پر 5 ،دیوندر فڑنویس پر 4 ،ہماچل پردیش کے سکھویندر سنگھ پر 4 کیرالہ کے وزیراعلیٰ پی وجین پر 2 اور سکم کے پی ایس تمانگ پر ایک ،بھگونت مان ،موہن مانجھی ،بھجن لال پر ایک ایک کیس چل رہا ہے ۔پارٹی وار کچھ پوزیشن ایسی ہے بھاجپا کے 336 وزراءمیں سے 136 ( 40 فیصد) پر مجرمانہ کیس ہیں ۔وہیں 88 ( 26 فیصدی پر ) سنگین الزام ہیں ۔کانگریس کے 61 وزراءمیں سے 45 ( 74 فیصدی ) پر کیس ہیں ۔18 ( 30 فیصدی ) پر سنگین الزام ہیں۔ڈی ایم کے 31 میں سے 27 وزیر ملزم ہیں ۔14 پر سنگین کیس درج ہیں ۔ٹی ایم سی کے 40 میں سے 13 ( 33 فیصدی ) پر کیس ہیں (20 فیصدی پر سنگین الزام ہیں ۔تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی کے 23 میں سے 22 ( 96 فیصدی ) منتری ملز م ہیں ان میں سے 13 ( 57 فیصدی پر ) سنگین مقدمہ درج ہیں ۔عام آدمی پارٹی کے 16 میں سے 11 ( 69 فیصدی )وزیر ملزم ہیں ۔پانچ اکتیس فیصدی پر سنگین الزام ہے ۔تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں حقیقت میں دیش میں کوئی ایسی پارٹی نہیں ہے جس میں مجرمانہ نوعیت کے نیتا نہ ہو ں ۔مجرمانہ معاملے کے اعداد شمار یہ بتاتے ہیں کہ مبینہ طور پر صاف ساکھ کا دعویٰ کرنے والوں میں سیاسی پارٹی بھی اپنے نیتاو¿ں پر لگنے والے داغ کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ۔وہ اگر سب سے پہلے کچھ دیکھتے ہیں کہ کون آدمی یہ سیٹ نکال سکتا ہے ۔بھلے ہی اس کی ساکھ کچھ بھی ہو ۔بہرحال اے ڈی آر نے وزراءکی اوسط پراپرٹی کے بھی دلچسپ اعداد شمار پیش کئے ہیں ۔کرناٹک میں سب سے زیادہ 8 ارب پتی وزیر ہیں ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دیش میں امیر لیڈروں کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی ۔یہی نہیں چناو¿ لڑنا بھی مہنگا ہوتاجارہا ہے ۔چناو¿ لڑنا عام آدمی کے بس سے باہر ہوتا جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایماندار کم وسائل والے لوگ اب اسمبلیوں ،لوک سبھا چناو¿ لڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں اور یہ حال سب پارٹیوں کا ہے اس لئے میں کہتاہوں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘