چین سے ہے سب سے بڑی چنوتی!
جب سے وزیراعظم ایس سی او کے لئے چین کی راجدھانی بیجنگ گئے ہیں تب سے پورے دیش میں ایک بار پھر ہندی -چینی بھائی بھائی کے نعرے سنائی دینے لگے ہیں۔حالانکہ ٹرمپ کے دو دن پہلے دیے گئے بیان میں وزیراعظم نریندر مودی کی تعریف سے پھر دیش میں شش وپنج کی صورتحال بن گئی ہے ۔بھکتوں کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ٹرمپ کی جے جے کریں یا شی جن پنگ کی ؟ ہمارا خیال ہے کہ چین کبھی بھی بھارت کا بھروسہ مند دوست نہیں ہوسکتا ۔اس درمیان بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا ایک تازہ بیان آیا ہے ۔جنرل انل چوہان نے اتر پردیش کے گورکھپور میں ایک پروگرام میں کہا تھا کہ چین کے ساتھ ان سلجھا سرحدی تنازعہ بھارت کی سب سے بڑی قومی سلامتی چنوتی ہے ۔اور پاکستان کے ذریعے چلائی جارہی پراکسی وار و ہزاروںزخموں سے بھارت کو لہو لہان کرنے کی اس کی پالیسی دوسری سب سے سنگین چنوتی ہے ۔جنرل چوہان نے اس سال مئی میں پہلگام آتنکی حملے کے بعد بھارت کے آپریشن سندور کا بھی ذکر کیا ۔اور کہا ہے کہ فوج نے اس دوران آتنکی کیمپوں کو تباہ کیا تھا ۔اس آپریشن میں فوج کو فیصلہ لینے کی پوری آزادی تھی ۔جنرل چوہان کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا ہے جب حال ہی میںچین کے تیانجنگ شہرمیں ہوئی اایس سی او سمٹ میں بھارت اور چین کے رشتوں میں گرماہٹ کے اشارے ملنے کی بات کہی جارہی ہے ۔اس سمٹ میں پاکستان نے بھی حصہ لیا تھا ۔اسی سال جولائی مہینے میں ہندوستانی فوج کے ڈپٹی چیف راہل سنگھ نے کہا تھا کہ آپریشن سندھور کے دوران چین نے بھارت کی ملیٹری تعیناتی پر نظر رکھنے کے لئے اپنے سیٹلائٹ کا استعمال کیا اور پاکستان کو اس کی ریئل ٹائم جانکاری دی تھی ۔یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ہندوستانی فوج صرف پاکستان میں نہیں لڑ رہی تھی بلکہ پاکستان تو ایک مکھوٹہ تھا پیچھے کھڑا تھا چین ۔ہم پاکستان اور چین دونوں سے لڑرہے تھے ۔چین نے پاکستان کو ہر طرح کے فوجی ساز وسامان ،ہتھیار مہیا کرائے کہا جارہا ہے کہ 80 فیصدی پاکستان کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ چین کے ذریعے دیے گئے ہیں ۔ان میں وہ فائٹر جنگی جہاز بھی ہیں جن کو لے کر پاکستان دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے ہندوستانی جنگی جہازوں کو گرایا ہے ۔جنرل چوہان نے کہا کہ دیشوں کے سامنےآنے والی چنوتیاں عارضی نہیں ہوتیں بلکہ الگ الگ شکلوں میں بنی رہتی ہیں ۔میرا خیال ہے کہ چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ بھارت کے ساتھ بڑی چنوتی ہے ۔اور آگے بھی بنی رہے گی ۔دوسری بڑی چنوتی ہے پاکستان کا بھارت کے خلاف پراکسی وار جس کی حکمت عملی ہے ہزار زخم دے کر بھارت کو کمزور کرنا ۔ادھر آرمی کے ڈپٹی چیف نے بھی آپریشن سندھور میں چین اور پاکستان کے بھارت کے خلاف مل کر لڑنے کی بات کہی تھی ۔بھارت پاک فوجی لڑائی کو چین نے ایک لائیو لیو کی طرح استعمال کیا تھا وہ دیکھ رہا تھا کہ جب چین کے ذریعے دیے گئے اس کے ہتھیار کیسے کام کررہے ہیں ۔چین کو چنوتی بتانے والے جنرل چوہان کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب بھارت کے خلاف ٹرمپ کے 50 فیصدی ٹیرف کی چین نے مخالفت کی ہے ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چین بھارت کے ساتھ متوازن بنائے رکھنا امریکی دباؤ کے خلاف ایک وار کا کام کرسکتا ہے ۔اور نئی دہلی کو پوری طرح واشنگٹن کی حکمت عملی گھیرے میں جانے سے روک سکتا ہے ۔یہ فوری مفادات کا میل ہے ۔کوئی گہری حکمت عملی اتحاد نہیں ہے ۔لیکن دونوں فریقین کے لئے کشیدگی بڑھانے کا موقع ضرو ر ہے ۔وزیراعظم مودی نے سات سال بعد چین کا دورہ کیا ۔اور صدر شی جن پنگ سے پچھلے دس مہینوں میں پہلی باہمی ملاقات کی تھی حالانکہ برف تو پگھلی ہے لیکن ہم ان رشتوں کو ایک دقیانوس لین دین والے نظریہ سے دیکھتے ہیں اس کے باوجود یہ رشتے بے بھروسے سے نجات نہیں ہیں ۔چین پاکستان کے ساتھ اپنے گہرے فوجی اور نیوکلیائی اشتراک بنائے ہوئے ہے ۔برہم پتر پر چین کے بڑے باندھ کی تعمیر اور اکسائی چین سے ہو کر گزرنے والی نئی ریل لائن بھارت کی سلامتی تشویشات کو بڑھاتی ہے ۔شنگھائی اشتراک انجمن جیسے کثیر علاقائی اسٹیجز پر بیجنگ نے جموں وکشمیر میں ہوئے حملے کی مذمت والے بیانوں کو روک لیا ۔لیکن بلوچستان تشدد کو اہمیت بنائے رکھی۔ان قدموں سے صاف ہے کہ چین کا موجودہ کشیدگی کو بڑھاوہ دیا ہے ۔چین بھلے ہی بھارت سے رشتے بہتر بنانے کی بات کہے لیکن اس نے اپنے سدابہار دوست پاکستان کا ہاتھ نہیں چھوڑا ۔یہ اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دونون ملکوں نے 8.5 ارب امریکی ڈالر پر مشتمل کے 21 سمجھوتے و جوائنٹ وینچر پر کچھ دن پہلے ہی دستخط کئے ہیں ۔اس میں چین پاک اقتصادی کوریڈور (سی پی ایس سی) پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے کی شروعات شامل ہے ۔پاک وزیراعظم شہباز شریف کے چین دورہ کے آخری دن جمعرات کو بیجنگ میں اس معاہدے پر دستخط کئے گئے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں