ٹرمپ کے آنے کا خوف !
امریکی صدر جو بائیڈن سنگین الزامات سے گھرے اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو مافی دینے کے بعد اب ایک اور قدم اٹھانے کی تیاری میں ہے ۔رپورٹ ہے کی نومنتخب صدر ڈونالٹ ٹرمپ کی بدلے کی کارروائی سے اپنے حکام اور ڈیمو کریٹک نیتاﺅ کو بچانے کے لئے بائیڈن اجتمائی مافی دینے پر غور کر رہے ہیں ۔واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے ایسے لوگوں کی فہرست تیار کر لی ہے جو ٹرمپ کے بدلے کی کارروائی کا شکار بن سکتے ہیں ۔اب ان سبھی لوگوں کو جرائم یا پہلے مافی دے دی جائے گی ےاکے ٹرمپ ان پر کوئی کارروائی کریں تو ان کا بچاﺅ ہو سکے ۔بائیڈن انتظامیہ کو لگتا ہے کے نو منتخب صدر ٹرمپ نے بڑے قانون تبدیلی افسر کی شکل میں کاش پٹیل کا انتخاب کیا ہے اس سے صاف ہے کے ٹرمپ اپنے دشمنوں کے خلاف کارروائی کا وعدہ پورا کریں گے ۔بتا دیں کے اپنے چناﺅ مہم میں ٹرمپ نے اپنے آپ کو نشانہ بنانے والے حکام کو جیل بھیجنے کی دھمکی بھی دی تھی۔اگر بائیڈن ان پر مقدمہ لگانے سے پہلے مافی دیں دےتے ہیں تو امریکہ میں 47 سال بعد ایسی نظیر ہوگی ۔اس سے پہلے 1977 میں امریکی صدر جمنی کارٹر نے ویتنام جنگ کے ملزیمان کو مقدمہ سے پہلے ہی مافی دی تھی ۔اس کے علاوہ 1974 میں صدر گرالڈ فورٹ نے سابق صدر کو پہلے مافی دی تھی حلانکہ بعد ان پر الزام ثابت نہیں ہو پائے تھے حلانکہ بائیڈن کی مقدمہ قائم سے پہلے مافی کو لیکر ڈیموکریٹک پارٹی بھی متفق نہیں ہے ۔اس سے ان کی پارٹی کی امیج کو نقصان ہوگا ۔کپیٹل ہیل تشدد کی جانچ کرنے والے سینیٹر ایڈم فش اور لزینی کا نام سب سے اوپر ہے ۔صدر جو بائیڈن کی اتحادی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی ایڈ انفیکشن ڈزیز محکمہ کے سابق انجاچ کا نام بھی مافی لسٹ میں شامل ہے جو کووڈ 19 وبا کے دوران جنوب نظریہ والی ریپبلکن پارٹی کی نقتہ چینی کا مرکز بن گئے تھے ۔وائٹ ہاﺅس کے وکیل جےف کو بھی کارروائی کا ڈر ہے ادھر امریکی فیڈرل فائیلنگ سے خلاصہ ہوا کے ٹیسلا کے سی ای او ایلن مسک نے ڈونلٹ ٹرمپ کے صدارتی چناﺅ کیمپئن پر 2 ہزار کروڑ سے زیادہ کی رقم دی ہے ۔بھلے ہی یہ رقم کی مسک کی اثاثہ کا ایک جھوٹا حصہ ہے لیکن پھر بھی یہ کسی سنگل عطیہ کنندہ کی جانب سے دی گئی بہت بڑی رقم ہے ۔جس میں سبھی کو چوکا دیا ہے ۔حالانکہ ٹرمپ کی جیت کا اعلان ہوتے ہی مسک کی اثاثہ میں کئی گنہ اضافہ ہو گیا اور چناﺅ میں لگائے گئے پیسے سے اس سے کئی گنا کما بھی لیا ہے اور آج ٹرمپ کا داہینہ ہاتھ بنے ہوئے ہیں۔(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں