اپاسنا استھل ایکٹ کو چنوتی!
سپریم کورٹ 12 دسمبر کو پیلیسس آف ورشپ (عبادت مقام)ایکٹ 1991 کی آئینی جواز کو چنوتی دینے والی عرضیوں پر سماعت کرے گا اس پر پورے دیش کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہے ۔پتہ چلا ہے کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنا اور جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوا ناتھن کی اسپیشل بینچ اس معاملے کی سماعت کریں گی ۔بتا دیں عبادت گاہ ایکٹ 1991 کا فیصلہ 5 ججوں کی بینچ نے کیا تھا اور اب اس پر سماعت 3 ججوں کی بینچ کرے گی ۔بڑی عدالت کے سامنے وکیل اشونی اپادھیائے اور دیگر نے عرضیوں میں درخواست کی ہے کے عبادت گاہ (اسپیشل سہولت)ایکٹ 1991 کی دفعہ 2,3 اور 4 کو منسوخ کر دیا جائے ۔یہ سہولت کسی شخص یا مذہبی عبادت گاہ مقام کو پھر حاصل کرنے کے لئے ادلیہ کے ضابطہ کے اختیارات چینتے ہیں ایسا دعوی کیا ہے کے عرضی گزاروں نے اس معاملے کی سماعت بنارس میں گیان واپی مسجد متھرا میں شاہی عید گاہ مسجد اور سنبھل میں شاہی مسجد سمیت مختلف عدالتوں میں دائر مقدموں کے پس منظر میں کی جائے گی ۔عرضی گزوں نے دعوی کیا ہے کے ان مسجدوں کی تعمیر گدیمی مندروں کی توڑ کر کی گئی تھی اور ہندوﺅ کو وہاں پوجا ارچنا کرنے کی اجازت دی جائے ۔ بتا دیں کے عبادت گاہ مقام ایکٹ 1991 میں سہولت ہے کے 15 اگست 1947 کو جو دھامک استھل جس صورت میں تھا اور جس فرقہ کا تھا مستقبل میں اسی کا رہے گا ۔اس سہولت کو چنوتی دی گئی ہے ۔سپریم کورٹ نے 20 مئی 2022 کو گیان واپی مسجد معاملے کی سماعت کی تھی اس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے زبانی رائے زنی کی تھی کے اپاسنا استھل ایکٹ کے تحت مذہبی کریکٹر کا پتہ لگانے پر روک نہیں ہے وہیں کمیٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کے اس ایکٹ کے تحت اس طرح کے تنازعہ کو نہیں لایا جا سکتا ہے ۔جمیعت علماءہند نے رام جنم بھومی بابری مسجد مالیکانہ حق کے معاملے میں 5 ججوں کی آئینی بینچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کے عبادت گاہ ایکٹ 1991 کے سلسلہ میں کو دھیان میں رکھتے ہوئے دلیل دی گئی تھی کے اب قانون کو درکنار نہیں کیا جا سکتا ۔1991 کا عبادت گاہ ایکٹ کا مقصد 15 اگست 1947 کے بعد کے مذہبی مقامات کی پوزیشن بنائے رکھنا تھا اور کسی بھی عبادت گاہ مقام میں تبدیلی کو روکنا تھا ۔ساتھ ہی ان کے مذہبی کردار کی حفاظت کرنا تھا ۔15 اگست 1947 بھارت کے لئے اہم ترین دن ہے ۔جب بھارت ایک آزاد جمہوری او رمختار ملک بنا تھا جس میں کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے اور سبھی مذاہب کو برابری سے دیکھا جا سکتا ہے ۔آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے بھی حال میں کے اب ہمیں ہر مسجد کے نیچے مندر نہیں ڈھونڈنا چاہئے ۔اس سے دیش کا بھائی چارہ بگڑتا ہے اور یہ سلسلہ رکنا چاہئے نہیں تو یہ بہت نقصان دیگا ۔ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا ضروری ہے کے وقف بورڈ کو ہر پراپرٹی کو وقف کی ملکیت کہنا بند کرنا ہوگا ۔اسی کا رد عمل ہے ہر مسجد کے نیچے مندر تلاشنے کا سلسلہ !
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں