الہ آباد ہائی کورٹ جج کا متنازعہ تبصرہ!

جسٹس شیکھر کمار یادو الہ آباد ہائی کورٹ کے جج ہیں ۔وہ اتوار کو وی ایچ پی کے ایک پروگرام میں شامل تھے ۔انہوں نے اس موقع پر جسٹس یادو نے ایک نہیں کئی اہم ترین متنازعہ اور افسوسناک کمنٹس کئے اور کہایونیفارمس سول کوڈ کے مسئلے پرہندوستان میں رہنے والے اکثریتی لوگوں کے مطابق ہی دیش چلے گا۔یہیں نہیں رکے آگے کہا ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے ،تین طلاق اور ہلالہ کے لئے کوئی بہانہ نہیں ہے اور اب یہ دقیانوسی روایتیں نہیں چلیںگی۔دراصل 8 دسمبر کو وی ایچ پی عدلیہ سیل نے الہ آباد ہائی کورٹ کی لائبریری ہال میں ایک پروگرا م میں وقف بورڈ ایکٹ ، تبدیلی مذہب ازالہ اور یونیفارم سول کوڈ ایک ضروری مسئلے پر بولتے ہوئے جسٹس شیکھر یادو نے کہا کہنے میں بالکل پرہیز نہیں ہے کہ یہ ہندوستان ہے اور ہندوستان میں رہنے والے اکثریتی لوگوں کے مطابق ہی دیش چلے گا ۔یہی قانون ہے آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہائی کورٹ جج ایسے بول رہے ہیں ۔قانون تو بھئیا اکثریت سے ہی چلتا ہے ۔جسٹس شیکھر آگے کہتے ہیں کٹ ملے دیش کے لئے خطرناک ہیں ۔جسٹس یادو کہتے ہیں جو کٹھ ملا ہے لفظ غلط ہے لیکن یہ کہنے میں گریز نہیں ہے کیوں کہ دیش کے لئے یہ خطرناک ہیں۔جنتا کو بہکانے والے لوگ ہیں اور ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔جسٹس شیکھر کمار یادو نے اور بھی بہت کچھ کہا ۔اگر جسٹس یادو کے بیان پر تلخ رد عمل مل رہے ہیں تو وہ فطری ہی ہیں ۔جج صاحب جس طرح کی باتیں کہتے نظر آرہے ہیں وہ دیش کے آئیں کے خلاف تو ہیں ہی ساتھ ساتھ ع دلیہ پر بھی سوال اٹھتا ہے ۔ایک موجودہ جج کے لئے اپنے سیاسی ایجنڈے پر ایک ہندو تنظیم کے ذریعے منعقدہ پروگرام میں سرگرم طریقہ سے شامل ہونا نا صرف شرم کی بات ہے بلکہ جج کے ذریعے لیے گئے حلف کی بھی خلاف ورزی ہے ۔یہ صحیح میں پریشان کرنے والی بات ہے اورحیرت کی بھی ہے کہ آئین کے سرپرست کا رول نبھانے والی عدلیہ کا سینئر ممبر ایک پبلک پروگرام میں کہتا نظرا ٓتا ہے کہ دیش (آئین قانون کے حساب سے نہیں ) اکثریتی لوگوں کی مرضی کے مطابق ہی چلے گا اور اس کا کوئی تردید بھی نہیں آتی خیال رہے یہ جوڈیشیری کے سینئر ممبروں کے ذڑیعے جانے انجانے میں آئینی ہتک سے جڑا پہلا معاملہ نہیں ہے ۔کچھ دنوں پہلے کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج کے ذریعے ایک مسلم اکثریتی علاقہ کا ذکر پاکستان کی شکل میں کئے جانے کا معاملہ سامنے آیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے کاروائی بھی شروع کی تھی ۔حالانکہ بعد میں اس جج کے معافی مانگنے پر کاروائی روک دی گئی تھی ۔یہ تسلی کی بات ہے کہ جسٹس شیکھر یادو کے بیان پر سپریم کورٹ نے سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے اور اس نے منگلوار کو ہائی کورٹ سے جسٹس یادو کے بیان پر مفصل رپورٹ دینے کو کہا ہے ۔سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے چیئرمین کپل سبل نے جسٹس یادو کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلانے کی مانگ کی ہے اور کہا کہ میں چاہوں گا کہ ہم ایک اکٹھے ہو کر جسٹس یادو کے خلاف مقدمہ لائیں۔سرکاری وکیل پرشانت بھوشن نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کو خط لکھ کر جسٹس یادو کے رویہ پر اور ان کی بیہودہ تبصروں کی جانچ کرائی جائے وہیں خبر یہ بھی ہے پارلیمنٹ کے اپوزیشن کے لیڈر اپوزیشن کے ایم پی بھی جسٹس کمار یادو کے خلاف پارلیمنٹ میں مقدمہ چلانے کی پرستاو¿ لانے کی تیاری کررہے ہیں اور اب تک 35 ایم پی نے اس پر دستخط کر دئے ہیں ۔ایک تجویز یہ بھی آئی ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیکھر سے سارے کیس واپس لے لئے جائیں اور انہیں انصاف دیو کہنا بند کر دیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!