آسام میں بیف کھانے پر پابندی!

پچھلے ہفتے کی شروعات میں آسام میں ریسترو اور شادیوں میں گائے کا میٹ یعنی بیف کھانے پر پابندی لگا دی ہے۔مخالفین نے اس قدم کو اقلیتی مخالف قرار دیا ہے اور اس کے پیچھے آسام میں ہیمنت بسوا سرما کی بھاجپا سرکار کا مقصد فرقوں کے درمیان پولارائیزیشن کرنا بتایا ہے بھارت میں سب سے زیادہ آبادی کشمیر کے بعد مشرقی ریاستوں میں ہے ۔وزیراعلیٰ نے کہا اب کسی بھی ہوٹل میں بیف نہیں کھلایا جا سکیں گا یہ فیصلہ 2021 کے اس قانون کو نافض کرنے کے لئے کیا گیا ہے ۔اس سے ان کی سرکار آسام میں مویشیوں کا کاروبار کو رگولیٹ کرنے کے لئے لیکر آئی تھی ۔آسام کیٹل روکتھام ایکٹ 2021 ،مویشیوں کے ٹرانسپورٹ پر پابندی کو سخت کرتا ہے اور مویشیوں کی قربانی کے ساتھ ساتھ ہندو دھرم کے مندروں کے 5 کلومیٹر دائرے کے میں بیف خرید وفروخت پر بھی پابندی لگاتا ہے ۔ہم 3 سال پہلے اس قانون کولائے تھے اور اب اسے کافی کارگر کہا جاتا ہے ۔مسلم مفادات نمائندوں کی کرنے والی سیول سوسائٹی انجمنوں کے ساتھ ساتھ آسام میں اپوزیشن پارٹیوں نے بھی وزیراعلیٰ کے اعلان کی مخالفت کی ہے ۔وہ اسے سال 2026 میں ہونے والے اسمبلی چناﺅ کے خاطر ہٹھایا قدم مانتی ہے کانگریس نیتا گورو گوگئی نے کہا کے وزیراعلیٰ جھارکھنڈ میں بی جے پی کی توہین آمیز ہار کے بعد اپنی ناقامی چھپانے کی کوشش کر رہے ہےں ۔وہیں آسام کانگریس صدر پھوپین نے کہا کے اس فیصلہ کا مقصد ،مالی بہران ،منگائی اور بے روزگاری جیسے اہم اشو سے دھیان ہٹانا ہے ۔آسام کانگریس کے ترجمان امن ودود نے کہا کے بی جے پی نے حالیہ چناﺅ میں جیتنے کے لئے چھوٹو ہتھکنڈے اپنائے جس میں دھاندلی اور حکام کی کوتاہیاںشامل ہیں۔اب وزیراعلیٰ بیک فٹ پر آ گئے ہیں انہوںنے کبنیٹ کے اس فیصلہ کو آگے بڑھانے کی شکل میں بیف کا حوالہ دیا ہے ۔سیاسی بیان بازیوں کو الگ بھی رکھ دیں تو مسلمانوں کے قریب 34 فیصدی آبادی آسام میں بیف کھانے پر پوری طرح پابندی سے وابستہ کئی اہم پہلوں ہیں اسے سب سے زیادہ ریاست کا بنگالی مسلم فرقہ محسوس کرتا ہے ۔جو آسام میں مسلم آبادی کا ایک اہم حصہ ہے انہیں اکثر یہ باہری بنگلہ دیسی غیر قانونی پرواسی بتایا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ ایسے قدموں میں ریاست میں چلنے والے مدرسوں کو ختم کرنا کثیر شادی پر پابندی اور لو جہاد سے نپٹنے کے لئے قانون لانے کی اسکیم شامل ہیں۔بنگالی مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے طلبہ یونین آل اسم مائینورٹیز اسٹوڈینٹ یونین کے صدر رضاالکریم نے پابندی کو اقلیتی فرقہ کو الگ تھلگ کرنے اور انہیں نشانہ بنانے کا ایک اور قدم بتایا ہے اگر بیف کھانے والوں کی ہم بات کریں تو ایسا نہیں کے بہت سے ہندو بھی بیف کھاتے ہیں گوا ریاست میں بیف کھلے عام کھایا جاتا ہے شمال مشرق کی کئی ریاستوں میں بیف کھانے کا چلن ہے ۔بیف نہ کھانا ایک مذہبی اشو تو ہو سکتا ہے ۔لیکن کس کو کیا کھاناپہننا ہے یہ تھوپہ نہیں جا سکتا۔سب سے دلچسپ یہ پہلو یہ ہے کے بھارت سے بیف زیادہ ایکسپورٹ ہوتا ہے ۔یہاں کی 4 سب سے بڑی کمپنیاں ہندوﺅ کی ہیں ۔پے شک نام انہوںنے گمراہ کرنے کے لئے اردو اور عربی ٹائپ کے رکھے ہوئے ہیں ۔کھانہ پینا یہ شخصی فیصلہ ہے جسے قانون سے لاگو کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!