لاشوں کو آخری حق دلانے والے شنٹی کو پدم شری !

ہندوستانی کلچر میں سنسکار اہم ہوتے ہیں در اصل میں یہ سنسکار دھرم ہی نہیں بلکہ قوم کو بھی ایک سوت میں باندھتے ہیں ۔انسانی زندگی کے آخری دور انتم سنسکار کے بارے میں ہر کلچر اور سماج مین مانا جاتا ہے کہ یہ متوفی کے اعتماد کے مطابق پوتر ہاتھوں سے پورا کیا جائے کورونا وباءکی شروعات میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب کورونا سے مرے افراد کا انتم سنسکار سے اپنے نے ہی ہاتھ کھینچ لیا تھا ایسے وقت میں جن کا کوئی نہیں ہوتا ان کا انتم سنسکار ان کے اعتقاد کی بنیاد پر کیا گیا ایسے ہی لوگوں پر مبنی ہے تنترکے گڑ شرپلا ہی آخری کڑی ۔۔ایک کورونا دورمیں لوگوں نے ایسے دن بھی دیکھے جن کا تصور کرنا بھی مشکل ہے لاشوں کو کندھا پریوار کے افراد یا رشتہ دار دینے کیلئے ہوتے ہیں ۔ لیکن جب دہلی میں کورونا انفیکشن کی شروعات ہوئی اور لوگون کی تیز ی سے موتیں ہونے لگی تو پریوار کے لوگوں نے ہی اپنوں کا ہی انتم سنسکا ر کرنے سے دوری بنا لی ایسے میں شہید بھگت سنگھ سیوا دل کے بانی جتندر سنگھ بھاٹی آگے آئے ۔بیٹے نوجوت اور ان کی انجمن کے ممبروں کےساتھ ملکر وہ کورونا سے جان گنوانے والے 965کورونا سے مرے لوگوں کی لاشوں کو انتم سنسکار کی جگہ تک پہونچا چکے تھے زیادہ تر انتم سنسکار بھی اپنے ہاتھوں سے کئے شہید بھگت سنگھ سیوا دل قریب 26برس سے مفت ایمبولینس سروس دستیاب کرارہے ہیں ۔ یہ مریضوں کے گھر اسپتا ل اور اسپتال سے گھر پہونچانے کاذمہ لیا اور 2020میں جب اسپتالوں میں موتوں کے معاملے بڑھے تو سیوا دل کی طرف سے 7ایمبولینس کے لاشوں کو انتم سنسکار کی جگہ تک پہونچانے میں لگی تھی شینٹی بتاتے ہیں اس وقت خاندان کے لوگ سمسان استھل پر بھی نہیں پہونچ رہے تھے ۔ یہ دیکھ کر کافی دکھ ہوتا تھا ہمیں ہماری قوت اراد ی اور مضبوط ہوگئی اور بعد میں12ایمبولینس لاشوں کو ڈھونے میں لگادی گئی اور تعداد بڑھتے بڑھتے 18ایمبولینس ہوگئی ساتھ ہی آٹھ مردہ باکس بھی تیار کئے گئے تاکہ رشتہ دار کے انتظار میں لاشیںخرا ب نہ ہوں ۔ اس دوران جتیندر سنگھ شنٹی اور ان کا پورا خاندان کورونا کی ضد میں آگیاا ن کے ایمبولینس ڈرائیو ر محمد عارف خان نے تو اپنے جان تک گنوا دی وہ شروع سے ہی ایمبولینس کے ذریعے مریضوں کو ڈھونے کی سیوا کر رہے تھے اور جتیندر شینٹی کو کورونا مریضوں کی سیو ا اور ان کی موت کے بعد انہیں سمسان گھاٹ پہونچانے والے شینٹی کو پدم شری ایوارڈ سے نوازے جانے پر ہم بھی انہیں بدھائی دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اسی طرح جنتا کی سیوا کرتے رہیں اور انہیں لمبی عمر دے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی سیوا کر سکیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!