لال قلعہ کے وقار پر چوٹ!
پچھلے دو مہینہ سے کسان تحریک بڑے صبر و ڈسپلن سے جاری تھی لیکن یوم جمہوریہ پر ٹریکٹر پریڈ میں کیسے اپنی سمت سے بھٹک گئی ۔یہ سوال آج سب پوچھ رہے ہیں ؟ کافی تنازعہ اور مشقت کے بعد کسان لیڈروں کو ٹریکٹر پریڈ کی تحریری اجازت ملی اور آپسی اتفاق رائے سے پریڈ کے راسطے طے ہوئے تھے لیکن اندر خانہ کسان لیڈروں کو اس بات کا احساس ہوا تھا کہ شام کچھ باہری عناصر کسانوں کی آڑ میں گڑبڑی کر سکتے ہیں اس لئے کسان لیڈر باربار آندولن کررہے کسانوں سے اپیل کررہے تھے کہ وہ کسی بھی شکل میں تشدد نہ کریں ۔بدامنی نہ پھیلائیں لیکن 26جنوری کو جو ہوا وہ شرمشار ہے ۔زرعی قوانین کے خلاف آندولن کررہے مظاہرین نے ساری مریادائیں بھول کر تشدد برپا کردیا ۔72ویں یوم جمہوریہ کی چمک کو ان بد امن عناصر نے ملیا میٹ کر دیا ۔منگل کو جس طرح سے بلوائیوں نے لال قلعہ پر قبضہ کیا اور دہلی کی سڑکوں پر قہرام مچایا ،اس سے غیر ملکی میڈیا نے بھارت کی ساخ کو خراب ہی کیا ہے ۔پاکستان میں بھی جشن منایا گیا لال قلعہ پر تو تاریخ کو داغ دار کر دیا گیا ۔جس مقام پر اور پول پر وزیرا عظم 15اگست کو ہر سال ترنگا پھیراتے آرہے ہیں وہاں نشان صاحب (گورودواروں پر لہرایا جانے والا جھنڈا )پھیرا دیا ۔لال قلعہ پر نشان صاحب کی تصویریں دنیا بھر میں وائرل ہو گئیں اور بھارت مخالف طاقتوں نے جشن منایا ہوگا ۔پاکستان کے کئی ٹوئیٹر ہنڈلوں نے اس تصویر کو ٹوئیٹ کیا اور بتایا گیا کہ بھارت کا جھنڈا بدل گیا ہے ۔ٹریکٹر پریڈ دن کے 12بجے سے دہلی باہری رنگ روڈ پر شروع ہونی تھی لیکن سنگھو بارڈر کی طرف سے کچھ کسانوں نے صبح 7:30بجے ہی اپنی ہلچل شروع کر دی تھی ۔اور دہلی کے اندر گھسنے کی کوششیں شروع کر دیں ۔انہیں روکنے کے لئے پولیس نے جگہ جگہ بیری کیٹ لگائے لیکن بلوائیوں نے انہیں توڑ دیا ۔اور آگے بڑھنے لگے مجبوراً پولیس کو کئی جگہوں پر طاقت کا استعمال کرنا پڑا آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے ۔حالانکہ کچھ کسان لیڈروں کا الزام ہے کہ پولیس نے طے راستوں پر روکاوٹیں کھڑی کرکے انہیں روکنے کی کو شش کی تو وہ مشتعل ہو گئے کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس آندولن میں بہت سارے ایسے بھی لوگ گھس آئے جو مشترکہ کسان مورچہ کا حصہ نہیں تھے کچھ لیڈروں نے یہ الزام بھی لگایا کہ یہ ساری سازش سرکار نے رچی اور اس کے ذریعے بھیجے گئے کسانوں کی شکل میں غنڈوں نے یہ سارا ہنگامہ مچایا کچھ شرارتی عناصر نے بھی اس پریڈ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تاکہ جھڑپ ہو اس سے کسان آندولن کو توڑا جا سکے ۔آندولن کو کمزور کیا جا سکے حقیقت کیا ہے اس کا پتہ تو منصفانہ جانچ کے بعد ہی چلے گا ۔مگر دہلی میں جگہ جگہ ہوئے جھگڑے سے کسان آندولن کی کافی بدنامی ہوئی ان اصولوں پر سوال کھڑے ہوئے ہیں جنہیں لے کر یہ آندولن پچھلے 66دنوں سے پر امن اور کنٹرول میں تھا یہ صحیح ہے اتنی بڑی تعداد میں جب آندولن کاری جمع ہو جاتے ہیں تو انہیں ڈسپلن میں رکھ پانا مشکل ہو جاتا ہے ۔مگر اس دلیل پر کسان لیڈر اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتے بے شک اب وہ منھ چھپاتے رہیں لیکن کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ ان کے لئے بھی شرمندگی کا موضوع ہے جو بھی ہوا برا ہوا اس سے بچا جا سکتا تھا اگر سرکار تھوڑ ا سمجھداری سے کام لیتی ۔ویسے بھی کسانوں کو بیٹھے 60دن گزر گئے تھے اتنے دن میں بھی مسئلے کا حل نا نکلنا سرکار کی کمزور ی ہی مانا جا سکتا ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں