چلو بلاوا آیا ہے ماتا نے بلایا ہے !

چلو بلاوا آیا ہے ماتا نے بلایا ہے جو جنگل میں راجا گودی میں بھیا کو لے کے آجا جیسے بھجنوں سے لوگوں کے دل میں راج کرنے والے بھجن سمراٹ نریندر چنچل کا 80سال کی عمر میں ندھن ہوگیا نریندر چنچل پچھلے کافی وقت سے بیمار چل رہے تھے پچھلے تین دنوں سے وہ دہلی کے اپولو اسپتا ل میں زیرعلاج تھے نریندر چنچل نے پچھلے سال اکتوبر کو اپنے کچھ دوستوں کو سر پریا میں وہا میں واقع اپنے گھر میں بلایا تھا اس دن ان کا 80واں جنم دن تھا انہوں نے کچھ دیر بعد ہی مہمانوں کو الوداع کیا ان کی طیبعت خرا ب چل رہی تھی لیکن یہ تب کسی نے نہیں سوچا تھا کہ بیشک مندر۔مسجد توڑیں (باقی میں ،بے نام ہوگیا )باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی ۔(روٹی کپڑا مکان)تونے مجھے بلایا (آجا)چلو بلاوا آیا ہے (اوتار)جیسے صد ا بہار گیتوں اور بھجنوں کو گانے والے نریندر چنچل کچھ مہینوں بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے وہ اپنے پیچھے بیوی اور بیٹا اور بیٹی و کروڑوں چاہنے والے کو چھور گئے ہیں۔ گڑکی نگری منڈی علاقے سے تعلق رکھنے والے نریندر چنچل نے فلمی دنیا ممبئی سے دور دہلی میں اپنا آشیانہ بنایا تھا ان کے دل کے قریب دہلی تھی انہوں نے ہزاروں جگ راتیں اور ماتا کے چوکیوں میں بھجن گائے تھے چونکہ دہلی پر پنجابیت کا گہرا اثر رہا ہے اس لئے یہاں پر نریندر چنچل کی گائی ماتا کی میٹھوں کو بہت پسند کیا جاتا رہا ہے ۔ نریندر چنچل کا اصلی نام چنچل کھربندہ تھا ۔ان کے نریندر چنچل بننے کی بھی ایک کہا نی ہے دراصل وہ اسکول میں جب پڑھتے تھے تو وہ بہت شرارتی تھے اس لئے ان کے ہندی کے ٹیچر انہیں نریندر چنچل کہہ کر بلاتے تھے اور انہیں یہ نام پسند آگیا اور انہوں نے اپنا نام یہی رکھ لیا چنچل کی زندگی اس وقت بدلی جب راج کپور نے انہیں ممبئی میں سنا جہاں وہ ایک پروگرام میں شامل ہونے گئے تھے ۔دن تھا13اپریل 1973انہیں راج کپور نے بللے شاہ کی غزلوں کو گاتے سنا تو انہیں بوبی فلم میں مندر مسجد توڑے گیت کو گانے کا موقع دیا اس کے بعد امرتسر کے باشندے چنچل نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا جس نے بھی یہ گیت سنا وہ چنچل کا سیدائی ہوگیا ۔نریندر چنچل مانتے تھے کہ اقتصادی اصلاحات کے بعد صبح 10سے 5بجے والے نوکریاں ختم ہونے لگیں تو وہ جگ راتوں کے پروگرا م منعقد کرنے لگے ان کی کچھ حد تک جگہ لے لی ماتا کی چونکیوں نے ان میں چنچل کے دو فلمی گیت ضرور گائے جاتے ہیں : تونے مجھے بلایا شیرا والی چلو بلاوا آیا ہے مات انے بلایا ہے ۔ نریندر چنچل کہتے ہیں کہ وہ جس جگ راتے میں جاتے تھے ان سے ان گیتوں کو ضرور سنانے کی فرمائش ہونے لگتی تھی چنچل کو اس بات کا فخر تھا کہ جگ راتا کلچر کو جوڑتا ہے لیکن منتظمین کا بھجن منڈلی سے اس طرح کی کوئی درخواست نہیں رہتی کہ وہ جو اونچی ہوجاتی ہو میں بہت اپنے آپ میں صحیح ہوں کی جگ راتا کلچر سے وابستہ لوگ ذات کی پیچیدگیوں سے کوئی واستہ نہیں رکھتے بہر حال نریندر چنچل نے کورونا وبا کے بھارت آنے کے بعد اس پر بھی بھجن گایا تھا افسوس یہی ہے کہ ان کا یہ آکری بھجن تھا ۔نریندر چنچل جی کو ہم اپنی شردھانجلی پیش کرتے بیشک وہ اب دنیا میں نہ ہوں لیکن ان کے گیت ہمیشہ امر بنا دیں گے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!