سستے کا لالچ چھوڑنا ہوگا!تبھی ڈریگن سے لڑپائیں گے
اس وقت پورے دیش میں چین کو مالی چوٹ پہنچانے کی مانگ اور منفی نظریہ زور پکڑچکا ہے حالانکہ پچھلے کافی وقت سے سوشل میڈیا پر چینی سامان کے بائیکاٹ کی مانگ چل رہی تھی۔لیکن شدت اس وقت اختیار کرگئی جب وزیراعظم نریندرمودی نے بدھ کے روز کہاکہ فوجیوں کی قربانی ضائع نہیں جائے گی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سرکاری مشینری اقتصادی محاذ پر چین کی گھیرابندی میں لگ گئی۔ وزارت ریل اور وزارت کمیونیکشن نے دوبڑے قدم اٹھائے۔ اب شہری ترقی وزارت کا نمبر ہے جو دہلی سے میرٹھ کے درمیان بن رہے ایم آر پی سی پروجیکٹ کا ٹھیکہ چینی کمپنیوں کو دیئے جانے کے فیصلے پر نظرثانی کررہی ہے۔ مرکزی حکومت نے سبھی پرائیویٹ موبائل سروس کمپنیوں کو چینی نیٹ ورک ہٹانے کے احکامات دیئے ہیں۔ بےشک آج پورے دیش میں چینی سامان کی بائیکاٹ کی مانگ اٹھ رہی ہے۔ لیکن باقاعدہ طورسے بھارت کس حد تک چینی سامان کو پوری طرح باہر کا راستہ دکھانے کی پوزیشن میں ہے؟ چین سے گہرے اقتصادی رشتوں کے پیش نظر چینی سامان کا پوری طرح سے بائیکاٹ کرنا اتنا آسان نہیں۔ اس پڑوسی دیش سے کاروباری رشتے پوری طرح ختم کرنے میں کافی مشکلیں ہیں۔ بھارت کا سب سے زیادہ انحصار الیکٹرانک سازوسامان پر ہے۔ سال 2019میں دیش میں کچھ الیکٹریکل سامان کی پروڈکٹس 34فیصد چین سے آیا۔ بھارت وہاں سے راڈاروں کے لئے ٹرانسمیشن سامان ٹی وی، کیمرہ، مائیکروفون، ہیڈ فون، لاو¿ڈاسپیکر وغیرہ سامان خریدتا ہے۔ چین کی موبائل کمپنی شیمی بھارت میں نمبر ون ہے۔ یہ تو بھارت میں اتنا مقبول ہے کہ اس نے ایک چوتھائی بازار پر اپنا قبضہ بنالیا ہے۔ بھارت نے پچھلے سال اپنی فرٹیلائزر امپورٹ کا دوفیصدی حصہ پڑوسی دیش چین سے درآمد کیا تھا۔ بھارت کھاد کے استعمال میں ہونے والا ایک اہم جزوڈائیونیم فاسٹ فیڈ چین سے لیتا ہے۔ کھاد کو بھی چین سے خریدتا ہے۔ پچھلے سال بھارت نے 10کھرب58ارب روپے سے زیادہ کے دیش کے لئے یورینیم کے نیوکلیئر ری ایکٹر اور بائلسر بھی چین سے منگوائے۔ میڈیکل سازوسامان کی جہاں تک بات ہے پچھلے سال میڈیکل سازوسامان کی کل درآمدات کا 2فیصد چین سے آیا۔ بھارت پڑوسی دیش پر پی پی ای، وینٹی لیٹرس، این95ماسک اور دوسرے میڈیکل سامان کے لئے منحصر ہے۔ حالانکہ اب پی پی ای کٹس اور ماسک کی پیداوار دیش میں زوروں سے شروع ہوچکی ہے۔ آٹو پارٹس کے کچھ امپورٹ کا 2فیصد حصہ پچھلے چین سے آیا تھا اور دیگر آٹو انڈسٹری سے متعلق سامان بھی بھارت آتا ہے۔ بھارت میں بننے والی کاروں کی کئی حصے بھی چین سے آتے ہیں۔ وہیں چین سے درآمد شدہ زیادہ تر سامان سے ہی چیزیں بنتی ہیں۔ کچھ سامان ایسے ہیں جن کا بنایا مال ہم سے منگواکر دیش میں ہی بیچتا ہے۔ مثلاً پچھلے سال قریب 3900کروڑ روپے کا لوہا، اسٹیل بھارت نے چین کو بھیجا اور اس کے بدلے میں اسٹیل سے بنے ہزاروں کروڑ روپے کا سامان درآمد کیا۔ ایسے بھارت میں دوا درآمدات میں بڑے دیشوں میں سے ایک ہے۔ کچے مال کے لئے ہم چین پر منحصر ہیں بھارت میں دوا بنانے والی کمپنیاں 70فیصد ایکٹیو فارمیٹیکل ایگریڈنس چین سے منگواتی ہیں۔ 2018میں 240کروڑ روپے کے اے پی آئی چین سے آئے۔ ایسے ہی 75فیصد اینٹی بائیوٹک دوا بازار میں چین کا قبضہ ہے۔ ہم سے کچا مال منگواکر ہمیں ہی بیچتا ہے۔ جب جب چین کے ساتھ تنازعہ بڑھتا ہے تو چینی سامان کا بائیکاٹ کرنے کا ماحول بننے لگتا ہے۔ لیکن حقیقت میں سستی لیبر اور وسیع سطح پر اسمبلنگ کے بوتے پر چین نے منظم طریقے سے دنیا بھر کے بازاروں میں کم داموں پرسامان فروخت کرکے اپنا دبدبہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ملکوں میں ڈریگن نے پاو¿ں پھیلائے وہاں کی مقامی کمپنیوں کو مقابلے سے باہر کردیا۔ مارکیٹ کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہم چین سے انحصار ختم کرکے خود کفالت کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اس میں لمبا وقت لگے گا۔ سرکار کو قوت ارادی کا پختہ مظاہرہ کرنا ہوگا اور تمام دعوو¿ں کے باوجود خود کفالت کی پالیسی پر چلنے کے لئے پالیسیوں میں ترمیم کرنی ہوگی اور ہندوستانی صارفین کو سستے کے لالچ کو بھی چھوڑنا ہوگا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں