کلر یمنا ایکسپریس وے، کب ہوگا سدھار

گریٹر نوئیڈا سے آگرہ تک بنے یمنا ایکسپریس وے کو اگر کلر روڈ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔165 کلو میٹر لمبے یمنا ایکسپریس وے پر یقینی سفر کے لئے ذمہ دار آخر کون ہے؟ رکھ رکھاؤ کرنے والی کمپنی جے پی انفراٹیکس یا پھر ٹریفک پولیس ؟ ہمیں تو دونوں میں سے کوئی ذمہ دار نہیں لگتا۔ یمنا ایکسپریس وے اتھارٹی، انتظامیہ، پولیس بی جے پی کی ٹال مٹولی سے ایکسپریس وے پر لگاتار حادثات ہورہے ہیں۔ پولیس کے لچر رویئے کے چلتے کرائم کے واقعات بھی بڑھے ہیں۔حالانکہ یہ ایکسپریس وے پانچ ضلعوں سے ہوکر گزرتا ہے لیکن ان اضلاع کی پولیس میں تال میل نہ ہونے کا فائدہ اٹھا کر بدمعاش لوٹ مار کے واقعات کو انجام دیتے ہیں۔ پولیس سرحدی تنازع میں الجھتی رہتی ہے اور بدمعاش فرار ہوجاتے ہیں۔ چھ سال پہلے شروع ہوئے یمنا ایکسپریس وے پر حادثوں و کرائم کے واقعات کے پیش نظر محفوظ سفر کا وعدہ اس وقت کی سپا سرکار نے کیا تھا لیکن چھ سال کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔ یمنا ایکسپریس وے پر آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتا ہے۔ تازہ مثال ہے اس کلر ایکسپریس وے پر ایم کے تین ڈاکٹروں کی حادثے میں موت ۔ حادثوں اور کرائم دونوں ہی معاملوں میں قابو پانے میں انتظامیہ و پولیس افسران ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ یمنا اتھارٹی کی مداخلت کے بعد بھی پانچ ضلعوں کی پولیس نے پچھلے سالوں میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔ یہ ایکسپریس وے گوتم بدھ نگر ، علیگڑھ ، متھرا، ہاتھرس، آگرہ ضلع سے ہوکر گزرتا ہے۔ ٹریفک پولیس کے بڑھتے حادثوں کی سب سے بڑی وجہ ڈرائیوروں کی لاپرواہی بتائی جارہی ہے۔ اس ایکسپریس وے پر رفتار کی حد کی سب سے زیادہ خلاف ورزی ہوتی ہے۔ روزانہ 60 ہزار گاڑیاں ایکسپریس وے سے آتی جاتی ہیں جس میں سے چار ہزار گاڑی ٹریفک قواعد کی دھجیاں اڑاتی ہیں۔ ٹریفک پولیس حکام کے مطابق اس ہائی وے پر 200 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گاڑیاں دوڑتے ہوئے پائی گئی ہیں۔ کیمروں کی نگرانی ہونے کے باوجود حالات سدھر نہیں رہے ہیں۔160سے180 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑیاں دوڑنا عام بات ہوچلی ہے۔ اب تک سات ہزار گاڑی ڈرائیوروں کا ڈرائیوننگ لائسنس تین مہینے کے لئے معطل کرنے کی سفارش متعلقہ اتھارٹی سے کی جاچکی ہے۔ زیادہ تر حاثہ آدھی رات کے بعد ایک سے تین بجے کے درمیان ہوتے ہیں۔ اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بے انتظامی کو فوراً درست کرنے کے احکامات دئے ہیں۔ دیکھیں کوئی سدھار ہوتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!