افسپا ہٹانے کا وقت نہیں ہے
عرصہ سے شورش زدہ علاقوں میں فوجی مخصوص اختیار قانون (افسپا) ہٹانے کا معاملہ موضوع بحث رہا۔ جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں فوج کی گولی سے دو پتھربازو ں کی موت اور جموں پولیس کے ذریعے فوج کے جوانوں کے خلاف رپورٹ درج کرانے کا جو معاملہ گیا ہے اسے دیکھتے ہوئے فوج کے چیف جنرل وپن راوت نے بالکل ٹھیک کہا کہ فی الحال افسپا پر نظرثانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ابھی اس کے بارے میں جائزہ لینے کا وقت نہیں آیا ہے۔ فوج جموں و کشمیر جیسی جگہ پر کام کرتے وقت انسانی حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے کافی احتیاط برت رہی ہے۔جنرل راوت کا یہ بیان اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ ایسی خبریں آئی تھیں کہ افسپا کو ہٹانے یا کم سے کم کچھ اس کی نکات کو ہلکا کرنے پر وزارت دفاع اور داخلہ نے کئی دور کی اعلی سطحی بات چیت ہوچکی ہے۔ دراصل یہ قانون فوج کو دیش کے اندر شورش زدہ علاقوں میں تعیناتی کے دوران اس کی کارروائی پر کسی جانچ پڑتال یا ڈسپلن شکنی کی کارروائی سے آزادی دیتا ہے۔کشمیر میں بھی رہ رہ کر اس قانون کے خلاف آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ موجودہ پی ڈی پی۔
بھاجپا سرکار کے دوران بھی کہا گیا تھا کہ شورش زدہ علاقوں میں فوجیوں کی تعیناتی کم کردی جائے لیکن پتھر بازی کی واردات بڑھنے سے یہ معاملہ پیچھے چلا گیا۔ اس معاملہ میں فوج کی یہ دلیل بھی قابل غور ہوسکتی ہے کہ اسے اندرونی علاقوں میں تعیناتی نہیں دی جانی چاہئے یا پھر کچھ مخصوص اختیار ضرور ہونے چاہئیں ورنہ فوجیوں پر کوئی بھی الٹے سیدھے الزام لگا سکتا ہے۔ اس سے بے وجہ فوج کا حوصلہ گر سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ بھارت سرکار کی سطح پر نئے سرے سے واضح کیا جائے کہ عدم رضامندی ، ناراضگی یا بے چینی کے نام پر فوج پر پتھر بازی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پتھر بازی اور کچھ نہیں ایک طرح کی قبائلی ذہنیت سے پیدا بربریت حرکت ہے۔ فوج جب کوئی بھی کارروائی کرتی ہے تو پیچھے سے یہ پتھر باز آتنکیوں کو بھگانے میں مدد کرتے ہیں۔ فوج ایک ساتھ آگے پیچھے نہیں لڑ سکتی۔ پھر اگر فوج پر پتھروں سے حملہ ہوتا ہے تو انہیں کیا اپنی حفاظت کرنے کا حق نہیں ہے؟ وزیر اعلی محبوبہ مفتی کویہ سمجھنا چاہئے کہ فوج اور سیکورٹی فورس کے صبر کی بھی ایک حد ہے اور بات بات پر علیحدگی پسندوں اور ان کے اکساوے پر سڑک پر اترنے والے پتھر بازوں کی حمایت کرنے سے انہیں اور ان کی سرکار کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ بہتر ہوگا کہ وہ فوج کی مجبوری بھی سمجھیں۔
بھاجپا سرکار کے دوران بھی کہا گیا تھا کہ شورش زدہ علاقوں میں فوجیوں کی تعیناتی کم کردی جائے لیکن پتھر بازی کی واردات بڑھنے سے یہ معاملہ پیچھے چلا گیا۔ اس معاملہ میں فوج کی یہ دلیل بھی قابل غور ہوسکتی ہے کہ اسے اندرونی علاقوں میں تعیناتی نہیں دی جانی چاہئے یا پھر کچھ مخصوص اختیار ضرور ہونے چاہئیں ورنہ فوجیوں پر کوئی بھی الٹے سیدھے الزام لگا سکتا ہے۔ اس سے بے وجہ فوج کا حوصلہ گر سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ بھارت سرکار کی سطح پر نئے سرے سے واضح کیا جائے کہ عدم رضامندی ، ناراضگی یا بے چینی کے نام پر فوج پر پتھر بازی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پتھر بازی اور کچھ نہیں ایک طرح کی قبائلی ذہنیت سے پیدا بربریت حرکت ہے۔ فوج جب کوئی بھی کارروائی کرتی ہے تو پیچھے سے یہ پتھر باز آتنکیوں کو بھگانے میں مدد کرتے ہیں۔ فوج ایک ساتھ آگے پیچھے نہیں لڑ سکتی۔ پھر اگر فوج پر پتھروں سے حملہ ہوتا ہے تو انہیں کیا اپنی حفاظت کرنے کا حق نہیں ہے؟ وزیر اعلی محبوبہ مفتی کویہ سمجھنا چاہئے کہ فوج اور سیکورٹی فورس کے صبر کی بھی ایک حد ہے اور بات بات پر علیحدگی پسندوں اور ان کے اکساوے پر سڑک پر اترنے والے پتھر بازوں کی حمایت کرنے سے انہیں اور ان کی سرکار کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ بہتر ہوگا کہ وہ فوج کی مجبوری بھی سمجھیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں