2018 میں ہی لوک سبھا اور ودھان سبھا چناؤایک ساتھ ہوں گے
وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے حالیہ دنوں میں کئی مواقعوں پر ایک ساتھ اسمبلی و لوک سبھا چناؤ کرانے کی اپیل کے بعد پیر کے روز بجٹ سیشن کے پہلے دن صدر رام ناتھ کووند نے اپنے ایڈریس میں بھی اس کا ذکر کرکے کیا یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ مودی حکومت وقت سے پہلے لوک سبھا چناؤ کرانے کے موڈ میں ہے؟ ا س کے ساتھ ہی سیاسی قیاس آرائیاں بھی شروع ہوگئی ہیں کہ کیا دیش اس کے لئے تیار ہے؟ کیا ہے اصل حالات ۔ ذرائع کے مطابق سال کے آخر میں عام چناؤ 6 مہینے پہلے کرانے کی کوشش ہوتی ہے تو ایسی صورت بن رہی ہے کہ آدھے سے زیادہ دیش میں ایک ساتھ چناؤ ہوجائے کیونکہ صدر کا ایڈریس سرکار کی پالیسی ساز دستاویز ہوتا ہے اس لئے ایک ساتھ چناؤ کا نظریہ شامل ہونا اور زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ پہلے ایسا ہوتا رہا ہے بعد میں حکومتوں کے میعاد پوری کرنے سے پہلے ہی گرجانے اور وسط مدتی چناؤ کی نوبت آنے کے سبب ایک آئینی روایت میں خلل پیدا ہوگیا۔ اس کی جگہ پر لوک سبھا اور ودھان سبھا چناؤ الگ الگ ہونے کی روایت نے اپنی جڑیں جما لیں۔ بار بار چناؤ ہونے سے نہ صرف پیسے کا بوجھ پڑتا ہے بلکہ ضابطہ لگانے سے ترقی بھی رک جاتی ہے۔ کانگریس نے کہا کہ سرکار جلد چناؤ کرانا چاہتی ہے۔ لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ملکا ارجن کھڑگے نے کہا کہ سرکار سب کچھ جلد نپٹاکر چناؤ میں جانے کے موڈ میں ہے۔ حالانکہ سرکار کے لوک سبھا اور اسمبلی چناؤ ایک ساتھ کرانے کے اشو پر کانگریس اپنا موقف صاف کرچکی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ اس بارے میں سرکار کو ٹھوس تجویز کے ساتھ سبھی سیاسی پارٹیوں سے تبادلہ خیالات کے بعد عام رائے بنانی چاہئے۔ وہیں راجیہ سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر آنندشرما نے کہا کہ سرکار یہ سمجھتی ہے کہ 2014 کے چناؤ میں جنتا سے کئے گئے سبھی وعدے پورے ہوگئے ہیں تو یہ لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔ معیشت کی حالت خراب ہے۔ ذراعت کی ترقی شرح 4 فیصدی سے گھٹ کر 1.9 فیصد تک آگئی ہے۔ دیش میں لوک سبھا اور اسمبلی چناؤ ایک ساتھ کرانے کیلئے رضامندی بنانے کے لئے سرکار پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن میں لوک سبھا میں ایک پرستاؤ لا سکتی ہے۔ این ڈی اے پارلیمانی پارٹی کے نیتاؤں کی میٹنگ میں حکومت نے اس بارے میں اشارے دئے ہیں۔ اگر لوک سبھا اسمبلی چناؤ ایک ساتھ کرانے پر رضامندی بنتی ہے تو اس سے جنتا کو تو کوئی پریشانی ہونے والی نہیں ہے لیکن کچھ اپوزیشن پارٹیاں اس کی آڑ میں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ انہیں مفاد عامہ کے ساتھ ملکی مفاد کو اولین ترجیح دینی چاہئے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں