بے گھر جانوروں کی انسانی بستیوں میں گھسنے کی مجبوری
قدرتی کے وسائل کے بڑھنے کی دو وجوہات ہیں جنگلوں سے بے گھر جانور مجبوراً انسانی بستیوں میں گھس رہے ہیں۔ آئے دن ہم سنتے ہیں کہ فلاں جگہ پر تیندوا آگیا۔ حال ہی میں لکھنؤ کے تھانہ ٹھاکر گنج کے رہائشی علاقہ مسری باغ میں ایک گونگے بہروں کے مشنری اسکول (سینٹ اسٹیفن) میں صبح صبح ایک تیندوا گھس آیا۔ تیندوے کو لکھنؤ چڑیا گھر کی ریپڈ رسپانس یونٹ اور محکمہ جنگلات کے ملازمین نے پولیس محکمہ کی ٹیم کو اسے پکڑنے کے لئے خاصی مشقت کرنی پڑی۔ اس تیندوے کو پکڑنے میں آٹھ گھنٹے لگے۔ تیندوا اسکول کی اسمبلی اسٹیج کے نیچے بنے بیسمنٹ میں جا کر گھس گیا تھا۔ ممبئی کے نانی پاڑا علاقہ میں ایک تیندوا گھس گیا۔ اس دوران تیندوے کے حملہ میں چھ لوگ زخمی ہوگئے۔ پولیس کے ایک سینئر افسر کے مطابق تیندوا نانی پاڑہ میں صبح قریب سوا سات بجے دکھائی دیا۔ یہ علاقہ پہاڑوں اور جنگلوں سے گھرا ہوا ہے۔ تلسی پور تھانہ کے امر ہوا کلاں گاؤں میں برآمدے میں کھیل رہے پانچ سالہ بچے کو تیندوا اٹھا کر لے گیا۔ دیہاتیوں نے تیندوے کا پیچھا کر بچے کو چھڑالیا۔ تیندوا سامنے آجائے تو اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں لیکن ماندو کے اڈہ کھا گاؤں کی ایک 10 سالہ لڑکی سرسوتی پر تیندوے نے حملہ کیا تو وہ بچے گھبرائی نہیں اور اس سے مقابلہ کرنے لگی۔ جیسے تیسے 100 میٹر دور موجود بڑے بھائی تک پہنچ گئی۔ پھر بھائی کے ساتھ مل کر ایسا شور مچایا کہ تیندوا بھاگ گیا۔ 2014-17 میں 1144 لوگ جانوروں کے حملوں کا شکار ہوئے۔1052 کو ہاتھی اور 92 کوباگھ نے شکار بنایا۔ 426 لوگ ایسے حملوں میں مرے۔ سال 2014-15 میں ایسا نہیں کہ جانوروں کو بھی خطرہ نہیں ہے۔2014-2017 میں مارے گئے، 84 ہاتھیوں کی جان گئی۔ اس دوران یہ جانور کھانا پانی کی تلاش میں اترا کھنڈ میں گلدار گاؤں ہی نہیں شہروں میں بنے گھر اور ہوٹلوں تک حملہ کرنے لگے ہیں۔ رائل بنگال ٹائیگر کا گھر مانا جانے والا مغربی بنگال میں باگھوں کی تعداد بڑھنے سے انسانوں کے ساتھ اس کا ٹکراؤ بھی بڑھا ہے۔ 4.68 فیصد باگھ فی 100 مربع فٹ میں بنے سندر بن میں رہتے ہیں لیکن آبادی کافی زیادہ ہے سندر بن میں ابھی 2014 میں یہاں 76 باگھ تھے۔ 30 سے 40 لوگ ہر سال باگھ کا شکار بنتے ہیں۔ جنگل کٹتے جارہے ہیں اور جانور آبادی والے علاقوں میں بھوک پیاس کی وجہ سے گھسنے پر مجبور ہیں۔ اس میں بھی ان کا کوئی قصور نہیں، پاپی پیٹ کا سوال ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں