18 سال سے کم عمر کی بیوی کے ساتھ جسمانی تعلق ریپ مانا جائے گا

نابالغ بیوی کے ساتھ رشتے بنانا اب بدفعلی مانا جائے گا۔ بھلے ہی تعلق بیوی کی رضامندی سے بنائے گئے ہوں۔ ابھی تک ایسے معاملوں میں بدفعلی کے الزام سے بچانے والی آئی پی ایس کی دفعہ 375(2) کے سیکشن کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قراردیا ہے۔ اس سیکشن کے تحت 15 سے18 سال کی بیوی سے رشتے بنانا بدفعلی نہیں مانا جاتا تھا۔ سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ 18 سال کی عمر کی بیوی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنا ریپ مانا جائے گا۔ عدالت کے مطابق نابالغ بیوی اس واقعہ کے ایک سال کے اندر شکایت درج کرا سکتی ہے۔ عدالت نے مانا کہ آبروریزی سے متعلق قوانیا میں سیکشن و دیگر قواعد کے اصولوں کے تئیں تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ بچی کو اپنے جسم پر مکمل اختیار ہے اور اتفاق رائے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس مدن بی لوکر اور دیپک گپتا کی بنچ نے بدھوار کو سرکار کی دلیلیں مسترد کرتے ہوئے کہا رشتے بنانے کے لئے طے 18 سال کی عمر گھٹانا غیر آئینی ہے۔ سرکار کی دلیل تھی کہ اس فیصلے سے سماجی پریشانی کھڑی ہوگی۔ بنچ نے یہ فیصلہ این جی او انڈیپینڈنٹ تھارٹ کی عرضی پر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ شادی شدہ نابالغ لڑکی کوئی شے نہیں ہے اسے عزت سے جینے کا حق ہے۔ پارلیمنٹ نے ہی قانون بنایا ہے کہ18 سال سے چھوٹی بچی سے رشتوں کی رضامندی نہیں دی جاسکتی ۔ پارلیمنٹ نے ہی بال ووہا کو بھی جرم مانا ہے۔ اسی بچی کی شادی ہونے پر شوہر رشتہ بنائے تو یہ جرم نہیں ہے؟ یہ بے تکا ہے۔ جے جے ایکٹ ، پاسکو بال ووہا قانون اور آئی پی سی کو ایک جیسا بنائیں۔ ماہرین کا کہنا ہے سبھی مذاہب پر یہ لاگو ہوگا۔ یہ فیصلہ پرانے معاملوں میں لاگو نہیں ہوگا۔ یہ فیصلہ بال ووہا پر سیدھا اثر ڈالے گا۔ قانون لڑکی کے لئے18 سال اور لڑکے کے لئے21 سال کی عمر میں شادی طے ہے۔ وہیں خاندانی بہبود محکمے کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانونی پابندیوں کے باوجود ابھی بھی 27 فیصدی نابالغ بچیوں کی شادیاں ہورہی ہیں۔ اس فیصلے کا سیدھا اثر یہ ہوگا کہ مقدمے میں اور سزا کے ڈر سے لوگ بچیوں کو اپنی بہو بنانے سے قباحت کریں گے۔ دیش کے کئی علاقوں میں آج بھی بال ووہا کی روایت رائج ہے۔ خاص کر لڑکیوں کی شادی کم عمر میں ہی کردی جاتی ہے۔ 2016 کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق دیش میں تقریباً 27 فیصدی لڑکیوں کی شادی18 سال کی عمر میں ہی ہوجاتی ہے۔ 2005 میں کئے گئے نیشنل ہیلتھ سروے میں یہ تعداد تقریباً 47 فیصدی تھی۔ یعنی صرف 10 برسوں میں 18 سال سے کم عمر والی لڑکیوں کی شادی میں 20 فیصدی گراوٹ آئی ہے اور نئے قانون کے ڈر سے امید کی جاتی ہے کہ اس کارروائی میں اور تیزی آئے گی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت مانتے ہوئے اب ریاستی سرکار وں کو بال وواہ روکنے کے لئے سخت قدم اٹھانے چاہئیں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2005 کے مطابق دیش میں 2 کروڑ30 لاکھ بالیکا ودھو موجود ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!