بھاجپا کیلئے ویک اَپ کال
بھارتیہ جنتا پارٹی کو مسلسل چناؤ میں جھٹکے لگ رہے ہیں ۔ اگر اب بھی پارٹی نہیں سنبھلی تو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے اسٹوڈینٹ یونین چناؤ نتیجوں نے جہاں کانگریس کی بانچھیں کھلا دی ہیں۔ وہیں بی جے پی ہائی کمان کوسوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر دہلی کی جنتا جس نے اسے سر پر بٹھایا وہ اب پارٹی سے کیوں دور ہورہی ہے؟ بوانا اسمبلی کے ضمنی چناؤ اور دہلی یونیورسٹی اسٹوڈینٹ یونین چناؤ میں بھاجپا کو ملی ہار سے صاف اشارے ہیں کہ دہلی کی جنتا چاہے وہ بوانا کہ ووٹر ہوں، چاہے وہ طلبا ہوں ان کا بی جے پی سے دلچسپ ختم ہورہی ہے۔ پارٹی ہائی کمان کے دہلی بھاجپا کے تئیں زیادہ توجہ نہیں دینے کا نتیجہ ہے۔ بھاجپا نے طلبا کی لابی میں پٹخنی کھائی ہے۔ تشویش کا باعث یہ ہونا چاہئے کہ دہلی کی ساتوں لوک سبھا اور تینوں میونسپل کارپوریشنوں میں قابض ہونے کے باوجود اسٹوڈینٹ یونین میں بازی کانگریس حمایتی این ایس یو آئی کے پالے میں چلی گئی؟اگرچہ سیکریٹری عہدہ و کچھ کالجوں میں جیت کے سبب اکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد کا پتا صاف ہونے سے بچ گیا لیکن جس جوش اور لاپرواہی کے چلتے دہلی یونٹ نے پتنگ بازی کی اس میں بنا کانٹا پہلے ہی نظر آرہا تھا۔صرف پی ایم مودی کے نام پر پر بار ووٹ ملنے کی اب گنجائش نہیں دکھائی دیتی۔ بھاجپا ہائی کمان و نیتا چاپلوسوں سے گھرے ہوئے ہیں اور مسلسل عوام سے کٹتے جارہے ہیں۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی سے پریشان جنتا کی مشکلیں یا تو کوئی سننے والا نہیں ہے یا پھر انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ جنتا کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ مشکل جنتا کے سامنے یہ ہے کہ فی الحال انہیں بھاجپا کا کوئی متبادل نظر نہیں آرہا ہے۔ اسی مجبوری کا فائدہ بی جے پی اٹھا رہی ہے۔ کانگریس پچھلے کچھ دنوں سے سرخیوں میں آئی ہے۔ راہل گاندھی بھی اب پورے فارم میں ہیں۔ اگلے مہینے ان کے پارٹی صدر بننے کا تذکرہ زوروں پر ہے۔ بھاجپا کا سب سے بڑا ہتھیار اپوزیشن پارٹیوں کا کمزور اتحاد ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے چناؤ میں بھاجپا اور کانگریس کی سیدھی ٹکر تھی۔ عام آدمی پارٹی بیچ میں نہیں تھی اس لئے بی جے پی حریف ووٹ کٹے نہیں۔ اگر عاپ پارٹی بھی کھڑی ہوتی کانگرسی اور عاپ میں ووٹ بٹ جاتے تو بیچ میں بھاجپا صاف نکل جاتی۔ بی جے پی کے مفاد ہوگا کہ وہ جنتا کے مسائل کے حل کیلئے کام کرے۔ صرف مودی پر پارٹی منحصر نہیں رہ سکتی۔ اقتدار ملنے کے بعد سے بی جے پی نیتا مغرور ہوگئے ہیں۔ کہیں یہ غرور پارٹی کو نہ لے ڈوبے۔
مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ جنتا کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ مشکل جنتا کے سامنے یہ ہے کہ فی الحال انہیں بھاجپا کا کوئی متبادل نظر نہیں آرہا ہے۔ اسی مجبوری کا فائدہ بی جے پی اٹھا رہی ہے۔ کانگریس پچھلے کچھ دنوں سے سرخیوں میں آئی ہے۔ راہل گاندھی بھی اب پورے فارم میں ہیں۔ اگلے مہینے ان کے پارٹی صدر بننے کا تذکرہ زوروں پر ہے۔ بھاجپا کا سب سے بڑا ہتھیار اپوزیشن پارٹیوں کا کمزور اتحاد ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے چناؤ میں بھاجپا اور کانگریس کی سیدھی ٹکر تھی۔ عام آدمی پارٹی بیچ میں نہیں تھی اس لئے بی جے پی حریف ووٹ کٹے نہیں۔ اگر عاپ پارٹی بھی کھڑی ہوتی کانگرسی اور عاپ میں ووٹ بٹ جاتے تو بیچ میں بھاجپا صاف نکل جاتی۔ بی جے پی کے مفاد ہوگا کہ وہ جنتا کے مسائل کے حل کیلئے کام کرے۔ صرف مودی پر پارٹی منحصر نہیں رہ سکتی۔ اقتدار ملنے کے بعد سے بی جے پی نیتا مغرور ہوگئے ہیں۔ کہیں یہ غرور پارٹی کو نہ لے ڈوبے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں