بلڈر خریداروں سے دھوکہ بازی نہیں کرسکتے

یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ سپریم کورٹ ان دغاباز بلڈروں کے خلاف سخت قدم اٹھا رہی ہے۔ کچھ بلڈروں نے اندھیر مچا رکھا ہے۔ جنتا نے اپنی گاڑھی کمائی سے گھر کا خواب پورا کرنے کے لئے انہیں بھروسے میں پیسہ دے دیا اور بدلے میں فلیٹ کی جگہ در در ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ یہ بلڈر پیسہ بھی کھا گئے اور فلیٹ بھی ابھی تک برسوں گزرنے کے بعد بھی نہیں دئے گئے۔ سپریم کورٹ نے کئی بلڈروں پر سخت کارروائی کے احکامات دئے ہیں۔ جمعہ کو ریئل اسٹریٹ فرم یونیٹیک کے منتظمین سنجے چندرا اوراجے چندرا کو انترم ضمانت دینے سے انکار کردیا ہے۔کورٹ نے کہا کہ اپنا پیسہ واپس مانگنے والے خریداروں کی تفصیل دستیاب ہونے کے بعد ان کی عرضی پر غور کیا جائے گا۔ جیل میں بند چندرا بھائیوں نے دہلی ہائی کورٹ میں 2015 میں درج کرمنل کیس میں ان کی عرضی خارج ہونے کے بعدبڑی عدالت سے انترم ضمانت کی درخواست دی۔ یہ معاملہ گورو گرام میں واقع یونیٹیک پروجیکٹ ۔وائلڈ فلاور کنٹری اور سنیتھیا اسکیم کے 158 خریداروں نے دائر کیا تھا۔ جسٹس پون بنسل نے کہا کہ انہیں ابھی تک کمپنی کے 55 پروجیکٹوں کا پتہ چلا ہے۔ 9 پروجیکٹوں میں قریب4 ہزار گھر خریداروں کے کمپنی کو تقریباً 1800 کروڑ روپے ادا کئے جانے کا اندازہ ہے۔ ادھر جے پی گروپ بھی بری طرح پھنس گیا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے فلیٹ نہ دینے میں دیری کرنے پر جے پی ایسوسی ایٹس کو حکم دیا کہ و ہ 10 خریداروں کو 50 لاکھ روپے کا انترم معاوضہ دیں۔ عدالت نے کہا بلڈر خریداروں سے دھوکہ بازی نہیں کرسکتے۔ عدالت نے یہ بھی کہا گھرخریداروں سے عام سرمایہ داروں جیسا برتاؤ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے اپنے سر پر چھت کے لئے اپنی گاڑھی کمائی خرچ کی ہے۔ پیسہ لے کر وقت پر فلیٹ نہ دینے کے الزام میں جے پی گروپ کے چیئرمین منوج گوڑ سمیت 12 افسران کے خلاف کیس بھی درج کیا گیا ہے۔ دنکوٹ کوتوالی میں دہلی شاہدرہ کے باشندے ایک خریدار اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے درج کی گئی شکایت پر جمعہ کو یہ کارروائی کی گئی۔ گپتا کا الزام ہے کہ جے پی انفراٹیک لمیٹڈ اور جے پرکاش ایسوسی ایٹ کے حکام نے انہیں جھانسے میں رکھ کر فلیٹ بک کرائے۔ خریداروں کا کہنا ہے کہ کمپنی نے 33 لاکھ روپے فلیٹ بک کرتے وقت لئے تھے اور اتنی ہی رقم الاٹمنٹ پر دینا طے ہوئی تھی۔ پچھلی قسط 2015 میں اور اس کے بعد دوسری قسط 2017 میں لی گئی۔ اس کے بعد فلیٹ بھی نہیں ملا تو کمپنی کے حکام سے شکایت کی گئی ، انہوں نے خریداروں سے تین ماہ کا وقت مانگا ، لیکن اس کے بعد بھی قبضہ نہیں دیا گیا۔ امرپالی کے پروجیکٹوں میں فلیٹ خریدنے والے سینکڑوں لوگ سنیچر کو صبح سڑکوں پر اتر آئے۔ دیکھیں کیا عدالت کی کارروائی کا کوئی اثر ہوتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟