لشکرطیبہ،حزب المجاہدین کا وادی میں کشیدگی پیدا کرنے کا منصوبہ

سکیورٹی ایجنسیوں کو ملی اطلاعات کے مطابق لشکرطیبہ اور حزب المجاہدین نے کشمیر وادی کو پھر سے دہلانے کی سازش تیار کی ہے۔ دونوں ہی دہشت گرد تنظیموں نے ہاتھ ملاتے ہوئے وادی میں ضمنی چناؤ اور ٹورسٹ سیزن کے دوران بڑی وارداتیں کرنے کا پلان تیار کیا ہے۔ وادی کشمیر کے علاقے شوپیاں ، پلوامہ، کلگام، ہنڈوارہ، کپواڑہ اور اننت ناگ میں دونوں تنظیموں کے پوسٹر ملنے سے سکیورٹی ایجنسیاں چوکس ہوگئی ہیں۔ ساؤتھ کشمیر سب سے حساس مانا جاتا ہے۔ اس کا علاقہ نیشنل ہائی وے سے بالکل لگا ہوا ہے جس سے سکیورٹی فورس کے قافلے کو نشانہ بنانا دہشت گردوں کے لئے آسان ہوسکتا ہے۔ برہان وانی کے مارے جانے کے بعد سب سے زیادہ 80 نوجوانوں نے اس علاقے میں دہشت گرد تنظیموں کا دامن تھاما ہے۔ بڑھے تشدد کے کئی ثبوت سامنے آنے لگے ہیں۔ وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع میں سکیورٹی فورس نے 10 گھنٹے سے زیادہ چلی مڈ بھیڑ میں حزب المجاہدین کے ایک دہشت گردکو ڈھیر کردیا۔ اس دوران دہشت گرد بھگانے کے مقصد سے مقامی شہریوں نے مظاہرہ کیا اور سکیورٹی فورس پر پتھراؤ بھی کیا۔ حالات پر قابو پانے کے لئے سکیورٹی فورس کو آنسو گیس کے گولے چھوڑنے پڑے اور جب اس سے بھی پتھراؤ نہیں رکا تو فائرننگ کرنی پڑی جس میں تین پتھر بازوں کی موت ہوگئی جبکہ ایک درجن سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ مارے گئے لڑکوں کی پہچان زاہد رشید غنی، عامر باجا اور اشفاق احمدکے طور پر ہوئی ہے ۔ کشمیر وادی میں اچانک تیز ہوئی پتھر بازی آگ زنی کو دیکھتے ہوئے وہاں سے اچھی خبر نہیں بلکہ خون خرابے اور مایوس کن خبریں ہی آسکتی ہیں۔ بڈگام کے واردات سے صاف اشارے مل رہے ہیں کہ پچھلے سال کی طرح ہی تشدد کے واقعات کی شروعات ہوچکی ہے۔ پچھلے دنوں فوج کے سربراہ جنرل راوت نے خبردار کیا تھا کہ فوج کے صبر یا کارروائی مہم میں رکاوٹ ڈالنے والوں اور دہشت گردوں کی سکیورٹی کوچ بننے والوں سے فوج سختی سے پیش آئے گی۔ علیحدگی پسند ان کے اس بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے مقامی لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں۔ سرکار کو سختی کے ساتھ ساتھ بات چیت کا عمل بھی شروع کرنا چاہئے۔ لڑکوں میں بڑھتی بے روزگاری ایک بڑی وجہ ہے کہ 500 روپے یومیہ لیکر گمراہ نوجوان پتھر بازی پر اتر آتے ہیں۔روزگار دینے کی سنجیدگی سے اسکیم بننی چاہئے۔ وادی میں تفریح کا بھی کوئی اب ذریعہ نہیں بچا۔ تمام سنیما ہال بند ہیں، لڑکے شام کو کیا کریں؟ ان کی توجہ ہٹانے کے لئے سنیما ہال وغیرہ کھلنے چاہئیں۔ وادی میں پچھلے ڈھائی دہائی سے زیادہ وقت سے جاری خون خرابہ کب رکے گا یہ سبھی کے لئے تشویش کا باعث ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!