بیف کے بڑے قتل خانے چلانے والے ہندو مالک

گؤ ہتیا صرف ایک اشو ہی نہیں بلکہ یہ ہماری آستھا اور ضمیرکا سوال ہے۔گائے کو ہندو دھرم کی دیوی کا درجہ حاصل ہے۔ گائے کے اندر دیوتاؤں کا واس ہمارے دھارمک گرنتھوں میں مانا گیا ہے۔ دیوالی کے دوسرے دی گووردھن پوجا کے موقعہ پر گائیوں کی خاص پوجا کی جاتی ہے اور ان کامورپنکھوں وغیرہ سے سنگار کیا جاتا ہے۔ پران کے مطابق گائے میں سبھی دیوتاؤں کا واپس مانا گیا ہے۔ گائے کو کسی بھی شکل میں ستانا زبردست پاپ مانا گیا ہے۔ اس کی ہتیا کرنا تو جہنم کے دروازے کو کھولنے کے برابر ہے۔ جہاں کئی جنموں تک دکھ جھیلنا پڑتا ہے۔ارتھ وید کے مطابق ’’دھینوسدانندرئی نام‘‘ یعنی گائے خوشحالی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ گائے سمردھی و پربھو کی زبردست علامت ہے وہ سرشٹی کے پوشن کا ذریعہ ہے۔ وہ جننی ہے۔ گائے کے دودھ سے کئی طرح کے پوڈکٹس بنتے ہیں۔ گوبر سے اندھن و کھاد ملتی ہے۔ اس کے پیشاب سے دوائیں و کھاد بنتی ہے۔ گائے اس لئے پوجنیہ نہیں ہے کہ وہ دودھ دیتی ہے اور اس کے ہونے سے ہماری سماجی ضروریات پوری ہوتی ہیں، دراصل مانیتا کے مطابق 84 لاکھ یونیوں کا سفر کرکے روح آخری یونی کی شکل میں گائے میں بنتی ہے۔ وگیانک کہتے ہیں کہ گائے واحدایسی پرانی ہے جو آکسیجن حاصل کرتی ہے اور آکسیجن کی چھوڑتی ہے جبکہ انسان سمیت سبھی پرانی آکسیجن لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتے ہیں۔اس کے برعکس پیڑ پودے اس کا ٹھیک الٹ کرتے ہیں۔ گائے کا میٹ جسے بیف کہتے ہیں کھانے والے ،بیف کو بیچنے والے سبھی کو اس سے بچنا چاہئے۔ جب بیف بیچنے والے خود ہندو دھرم سے وابستہ ہوں تو کیا کریں؟ بی بی سی ’ہندی‘ میں ایک شخص شری پرمود ملک (بی بی سی ، کام ) کی ایک تفتیشی رپورٹ شائع ہوئی ہے اس کو ہم پیش کرتے ہیں۔ یہ رپورٹ اترپردیش میں پچھلے دنوں بوچڑ خانے بند کرائے گئے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ وہ ناجائز طریقے سے چلائے جارہے تھے۔ بوچڑ خانوں کا ذکر آنے پر عام لوگوں کا جہاں خیال ہے کہ اس پیشے میں ایک خاص مذہب اور طبقے کے لوگ ہی کام کرتے ہیں وہیں حقیقت کیا ہے ؟ آپ کو جان کر تعجب ہوگا کہ بھارت کے 10 بڑے بیف ایکسپورٹرس کا تعلق ہندو فرقے سے ہے۔ مرکزی حکومت کے وزارت کامرس کے ادارے ایگریکلچر اینڈ فوڈ پروسسنگ و ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ کارپوریشن (اپیڈا) سے منظور دیش کے 74 بوچڑ خانوں میں سے 10 کے مالک ہندو ہیں۔ دیش کا سب سے بڑا بوچڑ خانہ تلنگانہ کے میڈک ضلع میں رودرے گاؤں میں ہے۔ تقریباً400 ایکڑ زمین میں پھیلے اس بوچڑ خانے کے مالک ستیش سبروال ہیں۔ یہ بوچڑ خانہ الکبیر ایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹڈ نام سے چلتا ہے۔ ممبئی کے نریمن پوائنٹ میں واقع ہیڈ کوارٹر میں مشرقی وسطیٰ کے کئی ملکوں کو بیف ایکسپورٹ کرتی ہے یہ بھارت کا سب سے بڑا بیف ایکسپورٹر بھی ہے اور مشرقی وسطیٰ کے کئی شہروں میں اس کے دفتر ہیں۔ دوبئی دفترسے فون پر بات چیت میں الکبیر مشرقی وسطیٰ کے چیئرمین سریش سبروال نے بی بی سی کو بتایا مذہب اور کاروبار دو بالکل الگ چیزیں ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے ملا کر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ کوئی ہندو بیف تجارت میں رہے یا مسلمان سود پر پیسے دینے کے کاروبار میں ہیں تو کیا حرج ہے؟ الکبیر نے پچھلے سال تقریباً 650 کروڑ روپے کا کل بزنس کیا تھا۔ اربین ایکسپورٹس پرائیویٹ لمیٹڈکے مالک سمیر کپور ہیں۔ ان کا ہیڈ کوارٹر ممبئی کے ایشیئر میگنس میں ہے۔ کمپنی بیف کے علاوہ بھیڑ کا میٹ بھی ایکسپورٹ کرتی ہے۔ اس کے ڈائریکٹر منڈل کے ورتن ناگناتھ کٹبولے وکاس ماروتی شندے اور اشوک نارنگ ہیں۔ ایم کے آر فروزن فوڈ ایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک مدن ایور ہیں۔ کمپنی کا ہیڈ کوارٹر دہلی میں ہے۔ ایور کولڈ اسٹوریج پرائیویٹ لمیٹڈ کا بوچڑ خانہ پنجاب کے موہالی ضلع کے سمگولی گاؤں میں ہے۔ اس کے ڈائریکٹر سنی ایور ہیں۔ النور ایکسپورٹرس کے مالک انل سود ہیں اس کمپنی کا دفتر دہلی میں ہے لیکن اس کا بوچڑ خانہ اور میٹ پروسسنگ پلانٹ اترپردیش کے مظفرنگر کے شیرنگر گاؤں میں ہے اس کے علاوہ میرٹھ ، ممبئی میں بھی اس کے پلانٹ ہیں ۔ اس کے دوسرے پارٹنر اجے سود ہیں۔ اس کمپنی کا قیام 1992ء میں ہوا اور یہ 35 دیشوں کو بیف ایکسپورٹ کرتی ہے۔ اے او بی ایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کا بوچڑ خانہ اترپردیش کے اناؤ میں ہے اس کے ڈائریکٹر او پی اروڑہ ہیں۔ یہ کمپنی سال 2001ء سے کام کررہی ہے۔ کمپنی کا ہیڈ کوارٹر نوئیڈا میں ہے اور ابھیشیک اروڑہ اے او بی ایگرو فوڈس کے ڈائریکٹر ہیں اس کمپنی کا پلانٹ میوات کے نوح میں ہے۔ اسٹنڈرڈ فروزن فوڈز ایکسپورٹر پرائیویٹ لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر کمل ورما ہیں اور پی این پروڈکٹس ایکسپورٹرس کے ڈائریکٹر ایس کمار ہیں۔ اشونی ایگرو ایکسپورٹ کا بوچڑ خانہ تاملناڈو کے گاندھی نگر میں ہے۔ کمپنی کے ڈائریکٹر راجندرن دھرم کو کاروبار سے بالکل الگ رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں دھرم نہایت ہیں الگ چیز ہے اور اس کا کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ مہاراج فوڈ پروسسنگ اینڈ کولڈ اسٹوریج کے پارٹنر سنی کھٹر کا بھی خیال ہے کہ مذہب اور کاروبار الگ الگ چیزیں ہیں، دونوں کو ملانا غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں میں ہندو ہوں اور بیف کے کاروبار میں ہوں ،تو کیا ہوگیا؟ کسی ہندو کے اس کاروبار میں ہونے کوئی برائی نہیں ہے میں یہ کاروبار کر کوئی برا ہندو نہیں بن گیا۔ اس کے علاوہ ہندوؤں کی بہت سی ایسی کمپنیاں ہیں جو صرف بیف ایکسپورٹ کے میدان میں ہیں ان کا کوئی بوچڑ خانہ نہیں ہے لیکن وہ میٹ پروسسنگ اور پیک کرکے ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ کنک ٹریڈرز ایسی ہی کمپنی ہے ، اس کے پراپرائٹر راجیش سوامی کہتے ہیں کہ اس کاروبار میں ہندو مسلمان کا امتیاز نہیں ہے۔ دونوں مذہبوں کے لوگ مل جل کر کام کرتے ہیں۔ کسی کے ہندو ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بوچڑ خانے بند ہوئے تو ہندو مسلمان دونوں کا ہی نقصان ہوگا۔ ہمارا خیال ہے چاہے وہ بیف ہو یا پورک (سور کا میٹ) ہو، نہ تو اس کو کھانا چاہئے نہ ہی اس کا دھندہ۔ زیادہ تر ہندوستانی ان دونوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیف پر پابندی لگانی چاہئے ، گؤ ہتیابند ہونی چاہئے ،چاہے اس میں کوئی بھی شامل ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟