عدالتوں میں التوا مقدموں میں 46 فیصدی حصہ داری حکومت کی ہے

ہمارے دیش میں مختلف عدالتوں میں مقدموں کا جتنا بوجھ ہے ویسا شاید ہی دنیا کے کسی دیش میں ہو۔ حکومت نے بتایا کہ دیش کی مختلف عدالتوں میں سوا تین کروڑ سے زائد مقدمات التوا میں ہیں۔ وزیر قانون و انصاف روی شنکر پرسات نے لوک سبھا میں وقفہ سوالات کے دوران بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر محمد سلیم کو ضمنی سوال کے جواب میں بتایا کہ30 ستمبر 2016ء تک سپریم کورٹ میں 62 ہزار سے زیادہ ، ہائی کورٹ میں 40 لاکھ 12 ہزار اور ضلعی عدالتوں میں 2 کروڑ 85 لاکھ مقدمے التوا میں تھے۔ روی شنکر نے بتایا کہ عدالتوں میں التوا 3.14 کروڑ مقدمات میں 46 فیصدی حصے میں سرکاری فریق ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ وزارت زبردستی فریق نہ بنے اور فریق بننے سے بچے۔ اپنے کیبنٹ ساتھیوں کو لکھے خط میں روی شنکر نے کہا کہ سرکار زبردستی مقدموں میں فریق ہونا بند کرے۔ عدالت کوا ن معاملوں کے نپٹان میں زیادہ وقت خرچ کرنا پڑتا ہے جہاں سرکار فریق بنی ہوئی ہے۔ ویسے قانون وزارت کے حکام کہہ چکے ہیں کہ حکومت عدالتوں میں التوا 46 فیصدی مقدموں میں فریق ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کے کسی وزیر قانون نے ان اعدادو شمار کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسا ہی خط سبھی ریاستوں کے وزرائے اعلی کو لکھا ہے۔ ہم شری روی شنکر کے مسئلے کی پیچیدگی کا اعتراف کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم اپنی مثال بتاتے ہیں کہ ہمارا جینا پراویڈنٹ فنڈ ڈپارٹمنٹ نے حرام کررکھا ہے۔ 20-20 سال پرانے مقدموں کو کھول کر زبرستی ڈیمانڈ نکال رہے ہیں۔ ہمارے جیسے ہزاروں کاروباریوں کو، کمپنیوں سے یہ برتاؤ ہورہا ہے۔ ایک بار ڈیمانڈ کھڑی کردیں تو یا تو آپ پورا پیسہ ڈیمیجس کا جمع کرائیں یا پھر عدالتوں میں مجبوراً جائیں۔ زیادہ تر عدالتوں میں جن برسوں میں ڈیمیجس مانگے جارہے ہیں ان کا تخمینہ بھی پورا ہوچکا ہے اور ڈیمانڈ پوری طرح سے نپٹان ہوچکی ہے لیکن آپ کوئی بھی دلیل دیں وہ ڈپارٹمنٹ کوئی بات نہیں سنتا اور ہار کر آپ کو عدالت کی پناہ میں جانے کیلئے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایسا ہی برتاؤ دیگر سرکاری محکموں میں بھی ہورہا ہے۔ مناسب ہی ہے کہ انہوں نے ہدایت دی ہے کہ حکام کو بیکار و چھوٹے موٹے معاملوں کی پہچان کر ان کی چھٹنی کر لینی چاہئے۔ انہیں آپس میں لینے یا ان کا تیزی سے نپٹان کرنے کے لئے قدم اٹھانا چاہئے۔ وزیر قانون سے پہلے وزیر اعظم اور سرکار بھی بڑھتے مقدموں پر اپنی تجویز جتا چکے ہیں۔ امید کی جانی چاہئے مقدموں کی تعداد گھٹے گی۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے جب سرکار سنجیدگی سے ساری وزارتوں اور محکموں کو ہدایت دے کہ بنا فیس کے بجائے مقدمہ کرنے پر مجبور نہ کریں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!