اب بی جے پی کی نظریں ہماچل گجرات اور کرناٹک چناؤ پر ہیں

پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ سے نمٹنے کے ساتھ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنا اگلا مشن شروع کردیا ہے۔ قیاس آرائیاں تو یہ بھی کی جارہی ہیں کہ گجرات میں وقت سے پہلے اسمبلی چناؤ ہوسکتے ہیں۔ پارٹی کے اندر اس طرح کے تبادلہ خیالات کے اشارے ملے ہیں کہ گجرات میں اسمبلی چناؤ سرکار مئی یا جون میں کرواسکتی ہے۔ یہ اشارہ ریاستی کانگریس صدر بھرت سنگھ سولنکی نے دیا ہے۔ سولنکی نے کہا کہ بی جے پی 31 مارچ کو اسمبلی بھنگ کرسکتی ہے اور مئی جون میں ریاست میں چناؤ ہوسکتے ہیں۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب ہماچل ،گجرات اور کرناٹک کے بارے میں کئی چیزیں سامنے آئیں گی۔ ان میں دوسری پارٹی کے نیتاؤں کابی جے پی میں خیر مقدم کرنے کا سلسلہ شروع ہونا بھی شامل ہے۔ کرناٹک میں سینئر کانگریسی لیڈر ایس ایم کرشنا کے پارٹی میں آنے سے یہ آغاز ہوگیا ہے۔ ہماچل و گجرات میں اسی برس کے آخر میں چناؤ ہیں کرناٹک میں اگلے سال اسمبلی چناؤ ہیں۔ لگتا ہے کہ بی جے پی کی سینٹرل لیڈر شپ تینوں ریاستوں میں یوپی اور اتراکھنڈ دوہرانے کے ارادے سے کام کررہی ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں بھی چناؤ سے پہلے دوسری پارٹیوں کے کئی لیڈر بی جے پی میں آئے تھے۔ 
بی جے پی کے صدر امت شاہ کی پالیسی اپنی پارٹی تنظیم کو مضبوط کرنے اور دوسری پارٹیوں کو کمزور کرنے کی لگتی ہے یعنی دو نوں کی برابر کوشش ہے تنظیم کو مضبوط کرنے کے لئے دیش بھر میں 10 کروڑ سے زیادہ ممبر بنائے گئے ہیں۔ کمزوری کو دور کرنے کے لئے کئی طرح کی کوششیں ہورہی ہیں۔ جہاں اپنے نیتا مضبوط نہیں ہیں وہاں دوسری پارٹی کے نیتاؤں کو بلا کر کمی دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یوپی۔ اتراکھنڈ میں بھی یہی فارمولہ اپنایا گیا۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کو ملی تاریخی کامیابی کے پس منظر میں ایک بات جو صاف ابھر کر آئی ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے نئے ہندوستان میں بھاجپا مسلمانوں کے لئے اچھوت نہیں رہی ہے۔ دیوبند، بریلی اور کئی مسلم اکثریتی سیٹوں پر بھاجپا کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ خودساختہ سیکولر پارٹیاں اب تک مسلمانوں کی ٹھیکیدار بن کر ووٹ کا سودا کیا کرتی تھیں مودی جی نے ان ٹھیکیداروں کا کاروبار بند کردیا ہے۔ اب خودساختہ سیکولر پارٹیاں شاید ہی مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرسکیں۔ تین طلاق کا اشو مسلم خواتین کو بھا گیا ہے اور گجرات ، کرناٹک میں بھی اسکا اثر دکھائی دے گا۔ آخر میں بتادیں بی جے پی کے تین ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ، منوہر پریکر اور کیشو پرساد موریہ جولائی کی آخر تک اپنا استعفیٰ نہیں دیں گے کیونکہ صدارتی چناؤ میں پارٹی ان کا ووٹ کھونا نہیں چاہتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟