جسٹس وشنو سہائے کمیشن کی سپا کو کلین چٹ

مظفر نگر فسادات کی جانچ کے لئے تشکیل جسٹس وشنو سہائے کمیشن نے اپنی جانچ میں اترپردیش کی سپا حکومت کو ایک طرح سے کلین چٹ دیتے ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کیلئے خفیہ مشینری کو پوری طرح سے ناکام اور ذمہ دار مانا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں حالات کی نزاکت کو سمجھنے میں ناکام رہی ہیں۔ کمیشن نے فسادات کے لئے سرکاری مشینری کو ذمہ دار مانا ہے لیکن کئی جگہ خود ہی بچاؤ بھی کیا ہے۔ دنگے کے بعد مظفر نگر میں تعینات کئے گئے ایس ایس پی سبھاش چندر دوبے اور نوٹی فکیشن یونٹ کے انسپکٹر پربل پرتاب سنگھ کو ہی سیدھے طور پر قصوروار مانا ہے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے دنگوں سے متعلق واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ 27 اگست سے15 ستمبر 2013 کے دوران مظفر نگر، شاملی، باغپت، سہارنپور ، میرٹھ میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے لئے پرنٹ اور سوشل میڈیا اپنی جوابدہی سے نہیں بچ سکتا۔حالانکہ کمیشن نے کسی خاص سائٹ یا پرنٹ میڈیا کو ان دنگوں کے لئے جوابدہ نہیں مانا ہے۔ کمیشن نے مانا ہے کہ 30 اگست2013ء کو جمعہ کی نماز کے بعد سیدالزماں، قادر رانا، نور سلیم رانا، رشید صدیقی، اعظم الزماں وغیرہ نے ایک اسٹیج نے مسلمانوں کی ایک بڑی بھیڑ کو خطاب کیا تھا۔ اس میں ہندوؤں کے خلاف قابل اعتراض زبان کا استعمال کیا گیا جس سے فرقہ وارانہ بھائی چارہ و مسلم فرقے کو ہندو فرقے کے خلاف بھڑکایا گیا۔ کمیشن نے کہا ہے کیونکہ اس معاملے میں بھی متعلقہ افراد کے خلاف کوتوالی سٹی میں مختلف دفعات میں مقدمات درج ہیں لہٰذا ان کے خلاف بھی سرکار کی طرف سے آئین کے سیکشن 20(2) کے تحت کوئی دیگر سزا دینے والی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ کمیشن نے کہا کہ یو ٹیوب پر ویڈیو کلپ لوڈ کرنے کے معاملے میں بھاجپا ممبر اسمبلی سنگیت سوم و دیگر 229 افراد کے خلاف مظفر نگر کی کوتوالی میں مقدمہ درج ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف آئین کے سیکشن20(2) کے تحت کوئی سزا دینے والی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ کمیشن نے موٹے طور پر فساد ہونے کے تین اسباب بتائے ہیں۔ طالبان کے ایک سال پرانے ویڈیو کو جس میں کچھ لڑکوں کی پٹائی ہو رہی ہے، کو سچن و گورو کے قتل سے جوڑ کر سوشل میڈیا کے ذریعے دکھایاگیا۔ مظفر نگر کے شہید چوک پر قادر رانا اور دیگر کے ذریعے میمورنڈم کی تقریر کا ڈی ایم و ایس ایس پی کے ذریعے نوٹس لیا جانا، ہندو مسلم دونوں فرقوں کے ذریعے بھڑکیلی تقریریں کرنا، نگلا مندوڑ میں منعقدہ پنچایت روکنے کے لئے انتظامیہ کی ناکامی، پنچایت میں حصہ لینے جارہے ہندوؤں پر بنسی کلاں میں حملہ، 7 ستمبر کی پنچایت میں حصہ لینے کے لئے مظفر نگر اور شاملی تک کے لوگ نگلا بھندوڑ آئے تھے راستے میں بنسی کلاں گاؤں میں نعرے بازی کو لیکر مار پیٹ ہوگئی تھی۔ لوگوں نے ٹریکٹر ٹرالیوں میں سفر کررہے لوگوں پر پتھراؤ کردیا تھا۔ انہی لوگوں نے نگلا مندوڑ پنچایت میں پہنچ کر بنسی کلاں میں جھگڑے کی جانکاری دی تھی۔کمیشن نے اس نکتہ کو بھی ہندو فرقے میں غصے کی وجہ بتایا ہے۔ پنچایت میں ایک بار توبنسی کلاں کوچ کرنے کا اسٹیج سے اعلان کردیا گیا تھا۔ بھاجپا نیتاؤں نے وشنو سہائے کمیشن کی رپورٹ پر سوال کھڑے کرتے ہوئے الزام لگایا کہ کمیشن نے صرف سپا سرکار کو بچانے کا کام کیا ہے۔ کمیشن نے حقائق کو چھپایا ہے۔ نگلا مندوڑ میں پنچایت کے کنوینر رہے وریندر سنگھ پردھان کا کہنا ہے کہ کمیشن نے ان سے یہ تک نہیں پوچھا کہ پنچایت کیوں منعقد کی گئی تھی۔ 27 اگست کی رات میں ڈی ایم سریندر سنگھ اور ایس ایس پی منجل سینی کا تبادلہ کس نے کرایا، سات قاتلوں کو کس نے چھڑوایا، اس کی جانچ ہوتی تو اعظم خاں اور امیرعالم کا نام سامنے آتا۔ کمیشن نے صرف سرکار کوہی بچایا ہے۔ اعظم خاں اور امیر عالم خاں کے رول کی جانچ نہیں کی گئی ہے۔ کمیشن نے محض لیپا پوتی کی ہے اور صرف سپا کے لیڈروں کو بچانے کا کام کیا ہے۔ دنگوں کی جانچ پانچ ججوں کے پینل سے کرائی جانی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!