ایک تھی نرجا

پچھلے دنوں ’’نرجا ‘‘فلم دیکھی بلا شبہ یہ ایک بہت اچھی فلم ہے۔ تفریح جذبات اور فرض شناسی کے حساب کتاب میں فلم ’’نرجا ‘‘ اپنی خاص چھاپ چھوڑتی ہے۔ ’’نرجا‘‘ ایک سچے واقعہ کو بیان کرتی ہے۔سال1986 کا ایک نقشہ کھینچا گیا ہے۔ بھارت کی ’’نرجا‘ ‘ وہ بہادر ایئر ہوسٹس تھی جس نے5 ستمبر 1986 ء کو اپنی جان کی بازی لگا کر پین ایم فلائٹ73 کے 359 مسافروں کی جان بچائی تھی۔ ممبئی سے نیویارک جارہی پین ایم فلائٹ کو کراچی میں 4 آتنک وادیوں نے اغوا کرلیا تھا۔ ایئر ہوسٹس نرجا بھنوٹ نے اپنی سمجھداری اور ہمت سے 359 مسافروں کی جان بچائی تھی۔حالانکہ آخر میں وہ بچوں کو بچاتے بچاتے دہشت گردوں کی گولی کا خود شکار ہوگئی۔ فلم میں ’’نرجا‘‘ کا رول سونم کپور نے بخوبی نبھایا ہے۔ ان کے بہت سے پرستار دعوی کرتے ہیں کہ یہ ان کی زندگی کی سب سے اچھی پرفارمینس ہے۔ اس واقعہ کے دو دن بعد نرجا کی سالگرہ تھی اور وہ گھر سے اپنی ماں رما (شبانہ اعظمی) سے یہ کہہ کر نکلی تھی کہ اسے تحفے میں پیلے رنگ کا ایک سوٹ چاہئے۔ نرجا کو یہ تحفہ ملا تو لیکن اس تابوت کے ساتھ جو کراچی سے ہندوستان آیا تھا۔ پین ایم فلائٹ کراچی میں اترتی ہے۔ یہاں تھوڑی دیر رک کر جہاز کو آگے فرنکفرٹ کے لئے پرواز کرنی ہے۔ فلائٹ سے اترنے کی تیاری مسافر کرہی رہے ہوتے ہیں کہ کچھ آتنکی حملہ کردیتے ہیں اور جہاز کا اغوا کرلیتے ہیں۔ نرجا پہلی منزل پر بنے کاک پٹ میں بیٹھے طیارے کے پائلٹ کو طیارہ اغوا کی اطلاع دے دیتی ہے۔ پائلٹ ٹیم بھاگ جاتی ہے جس سے دہشت گردوں کے منصوبوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ پائلٹ ٹیم کو واپس پانے کے لئے دہشت گرد مسافروں اور جہاز کے اسٹاف کے ساتھ برا برتاؤ کرتے ہیں۔ نرجا انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی اور مسافروں کی مدد کرتے ہیں۔ گھنٹوں گزر جاتے ہیں آتنک وادی ایک دو لوگوں کو مار دیتے ہیں۔ پاک فوج جہازپر حملہ بول دیتی ہے اور موقعہ پا کر نرجا جہاز کا گیٹ کھول کر مسافروں کو وہاں سے نکال دیتی ہے۔ ’’نرجا‘‘ کا کردار مشعل رہا ہے۔ ایسی صورت میں جب ان کی ماں رما (شبانہ اعظمی) اسے بار بار نوکری چھوڑنے کو کہتی ہے تو بیٹی نرجا سے کہتی ہے کہ مشکل کی گھڑی میں پہلی اپنی جان بچائیں لیکن نرجا ایسا نہیں کرتی۔ اداکارہ سونم کپور فلم پروڈیوسر کو لگتا ہے کہ اکیڈمی ایوارڈ 2016 کے لئے فلم کو ہندوستان کی طرف سے منظوری ملنی چاہئے تھی۔ فوکس اسٹوڈیو کے سی ای او وجے سنگھ نے کہا میرے خیال میں یہ فلم بھیجنے لائق تھی۔ اس سے بھارت کو فخر ہوگا۔اس کو اس سال آسکر کے لئے بھیجا جانا چاہئے۔
(نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!