ہدایت کی خلاف ورزی سے کنہیا کی ضمانت منسوخ ہونی چاہئے
رنگ ہرا ہری سنگھ نالوا سے رنگ لال سے لال بہادر، رنگ بنا بسنتی منگل سنگھ، رنگ امن ویر جوان سے۔۔۔ کنہیا کمار کو ضمانت دینے کے دوران دہلی ہائی کورٹ کی جج محترمہ اوشا رانی نے ’اپکار‘ فلم کے ایک گانے کی ان ستور کو بیان کرتے ہوئے سوال کیا کہ جے این یو سے امن کے رنگوں کو ختم کیوں کیا جارہا ہے؟عدالت نے آگے کہا اس سوال کا جواب وہاں کے طلبا، اساتذہ اور یونیورسٹی انتظامیہ سے مانگنی کی ضرورت ہے۔کورٹ نے یہ بھی کہا کہ جے این یو میں جس طرح سے ملک مخالف نعرے لگے اس سے شہیدوں کے رشتے داروں کو مایوسی ہوئی ہوگی۔ یہ طلبا آزادانہ طور سے اس لئے نعرے لگا رہے ہیں، کیونکہ فوج کے جوان اور پیرا ملٹری فورس دیش کی سرحدوں کی حفاظت کررہی ہیں۔ کنہیا کمار کو مشروط ضمانت ملی تھی اس میں صاف کہا گیا تھا کہ ملکی بغاوت کے ملزم جے این یو اسٹوڈنٹ یونین لیڈر کنہیا کمار نے اگر ہائی کورٹ کی ایک بھی گائیڈ لائنس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، تو ان کی عارضی ضمانت منسوخ ہوسکتی ہے۔ عدالت نے کنہیاکو صاف ہدایت دی تھی کہ وہ کسی بھی طرح کی ملک مخالف سرگرمیوں میں شامل نہ ہو لیکن کنہیا کمار ان گائیڈ لائنس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ وہ تو سیاسی آئیکون بننے کے چکر میں ہیں۔ ان کو اس میں حمایت مل رہی ہے لیفٹ پارٹیوں کی، کانگریس پارٹی کی اور عام آدمی پارٹی و دیگر اپوزیشن لیڈروں کی۔ پہلے بات کرتے ہیں کنہیا کمار کیا کہہ رہے ہیں۔ ویسے تو رہا ہونے کے بعد سے ہی وہ بکواس کررہے ہیں۔ جیل سے چھوٹتے ہی اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے کہا کہ دن میں مودی جی بھاشن دے رہے تھے انہوں نے اسٹالن اور اور میدوف کا ذکر کیا تب لگا کہ ٹی وی میں گھس کر مودی کا سوٹ پکڑ کرکہوں ہٹلر پر بھی بولئے۔کنہیا نے کہا جیل میں ایک تھالی اور دو رنگ کی کٹوری ملی۔ ایک لال اور ایک نیلی۔ تھالی سے مجھے بھارت دکھائی دیتا تھا اور اس میں رکھی دو کٹوریاں ایک انقلاب اور دوسری بابا صاحب کے سماجی سمرستہ تحریک کی جھلک تھی۔ چلو یہاں تک بھی ٹھیک تھا لیکن اب تو کنہیا نے ساری حدیں پار کردی ہیں۔ اس بار ان کے نشانے پر ہندوستانی فوج کے جوان ہیں۔ کنہیا نے کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کشمیر میں فوج کے ذریعے عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے۔ حفاظت کے نام پر جوان عورتوں سے آبروریزی کرتے ہیں۔ حالانکہ کنہیا نے یہ بھی کہا کہ وہ سکیورٹی فورس کی عزت کرتے ہیں لیکن جب اس نے کشمیر کا ذکرکیا تو کہا کہ وہاں فوج آبروریزی کرتی ہے۔ سینئر سپریم کورٹ وکیل مونیکا اروڑہ نے کنہیا کی مشروط ضمانت پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ جیسے یعقوب میمن اور افضل گورو کے فیصلوں کا جائزہ کنہیا اور ان کے ساتھی کررہے ہیں کنہیا کی ہائی کورٹ سے ضمانت پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔ اپنے حکم میں جسٹس پرتیبھا رانی نے کہا کہ 9 فروری کو افضل گورو پر مہما منڈل پروگرام میں کنہیا کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جانچ کا شو ہے کے اس پروگرام میں کنہیا کا کیا رول تھا؟ فیصلہ کہتا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا بیجا استعمال کرنے اور ملک مخالف نعرے لگائے گئے۔ کیونکہ یہ کنہیا کا فرض تھا وہ ایسے نعروں کو روکے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور نعرے لگانے دئے۔ بھارت کے ٹکڑے کردوں، بھارت کی بربادی وغیرہ جیسے نعرے اگر ملک مخالف نہیں ہیں تو کیا ہیں؟ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ’بندوق سے لیں گے آزادی‘ تو یہ ملکی بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا کیا؟ کنہیا کی ضمانت منسوخ کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ اس نے شرطوں کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور کررہا ہے۔ بشرطیکہ پولیس انترم ضمانت منسوخ کرنے کے لئے عدالت میں اپیل دائر کرے۔ مشروط ضمانت کے بعد بھی کنہیا کے انقلابی، ملک مخالف تقریر و نعرے جاری ہیں۔ دہلی پولیس کے افسران کی مانیں تو اگر کنہیا نے دیش مخالف بیان بازی کی تو ہائی کورٹ میں اس کے خلاف ضمانت منسوخ کرنے کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے اور اس کے کافی ثبوت ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں